مظفرآباد (این این آئی)آزاد جموں وکشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ کشمیریوں کے اندر دھڑے بندی کشمیری قوم کی بد قسمتی ہے۔ اگر شیخ عبداللہ 1947میں غلط سیاسی فیصلہ کر کے کشمیر پر بھارت کا قبضہ کرانے میں سہولت کار اور مد د گار کا کردار ادا نہ کرتے تو کشمیریوں کو غلامی کی یہ سیاہ اور طویل رات نہ دیکھنا پڑتی۔ مقبوضہ کشمیرمیں عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے دور اقتدار میں کشمیری نوجوانوں کو چن چن کر قتل کیا گیا،
انھیں آنکھوں کی بصارت سے محروم کیا گیا اور انہیں اذیت خانوں میں تشدد کر کے زندگی بھر کے لئے معذور کیا گیا اور اب اگر یہ کہا جائے کہ عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، سید علی گیلانی اور آسیہ اندرابی کو ایک میز پر اکھٹا بٹھایا جائے تو یہ کیسے ممکن ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے کشمیر انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ میں “مقبوضہ کشمیر کا موجودہ منظر، مواقع اور چیلنجز”کے موضوع پر آزاد کشمیر کے سینئر انتظامی آفیسران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے آزادکشمیرکے چیف سیکرٹری مطہر نیاز رانانے بھی خطاب کیا جبکہ حکومت کے سیکرٹریز، مختلف محکموں کے سربراہان سمیت انتظامی آفیسران کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ صدر آزادکشمیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیریوں کے حقیقی لیڈر سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، ےٰسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی اور وہ دوسرے لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ کی بے مثال قربانیاں دیں اور اپنی زندگیاں کشمیر کی آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول کے لئے صرف کر دیں۔ یہ وہ قائدین ہیں جنہوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور ان کے عزم و استقلال اور جرات و بہادری پر لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کے کشمیری انھیں سلام پیش کرتے ہیں۔ صدر آزادکشمیر نے کہا کہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا ہے قاتل اور مقتول اور ظالم اور مظلوم کو برابر کا درجہ دیکر ایک ساتھ بٹھا دیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سید علی گیلانی اور ان جیسے دوسرے قائدین کی قیادت کا کرشمہ ہے کہ کشمیری قوم نے ایک لاکھ انسانوں کی قربانی دینے،
اپنے مال و جائیداد کو تباہ کروانے اور اپنی عزت و حرمت کی قربانی دینے کے باوجود اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور نہتے ہونے کے باوجود بھارت کی نو لاکھ فوج کو نکیل ڈال رکھی ہے۔بھارت ایک پھر کشمیریو ں میں سے ایک نئی پولیٹیکل کلاس کو سامنے لانے کی تگ و دو کر رہا ہے تاکہ دنیا کو نئی دھلی کے حق میں بولنے والے چند چہرے دکھا سکے لیکن کشمیریوں نے اب یہ تہیہ کیا ہوا ہے کہ بھارت کے دھوکے میں مذید نہیں آئیں گے۔صدر آزادکشمیر نے کہا کہ
بھارت نے 1947میں کشمیر پر قبضہ جمانے کے بعد شیخ عبداللہ اور بخشی غلام محمد جیسے لوگوں کو اقتدار میں دیا، دھلی میں انھیں اقتدار میں شراکت دی، مقبوضہ کشمیر میں اپنے حمایتی سیاسی جماعتوں کے لئے تجوریوں کے منہ کھولے لیکن 72سال تک یہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ کشمیریوں کی آزادی کے ساتھ وابستگی کے جذبہ کو ختم کر سکا اور نہ ہی کشمیریوں کی اپنا ہمنوا بنا سکا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کے اقدامات کے بعدکی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے
صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت نے دفعہ370اور خاص طور پر دفعہ35۔اے ختم کر کے، مقبوضہ جموں وکشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اور انھیں بھارتی یونین میں مدغم کر کے نہ صرف کشمیریوں کی علیحدہ شناخت اور پہچان پر حملہ کیا ہے بلکہ وہ اب مقبوضہ ریاست میں کشمیریوں کو اپنے گھروں اور زمینوں سے بیدخل کر کے اور وہاں ہندوں کو آباد کر کے کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازش بھی کر رہا ہے۔ بھارت کے یہ تمام اقدامات اقوام متحدہ کی قرار دادوں، بین الاقوامی قوانین خاص طور
پر چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ کشمیرکے حوالے سے چیلنجز اور مواقع پر گفتگو کر تے ہوئے صدر نے کہا کہ اگست پانچ کے بعد دنیا کے اہم ممالک جن میں چین، ترکی، ملائیشیا، ایران، جرمنی، فن لینڈ اور دوسرے ممالک شامل ہیں، نے کھل کر کشمیریوں کی حمایت اور بھارتی اقدامات کی مذمت کی جبکہ دنیا کے ذرائع ابلاغ اور امریکی کانگریس سمیت کئی ممالک کی پارلیمان نے کشمیریوں کے موقف کی حمایت میں آواز بلند کی۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی نے کشمیریوں اور پاکستان کو جو نیا موقع فراہم کیاہے
اس سے استفادہ کرنے اور کشمیری اور پاکستانی تارکین وطن کو متحرک کر کے اس طاقت کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کی سول سوسائٹی تک پہنچ کر اسے منطق اور دلیل سے اپنے موقف کی حمایت پر آمادہ کرنا اور دنیا کے ان ممالک کو جو اپنے سیاسی و معاشی مفادات کی وجہ سے بھارت کے خلاف بولنے کے لئے تیار نہیں انھیں بولنے پر مجبور کرنا بھی ایک بڑا چیلنج جس سے کشمیریوں اور پاکستان کوعہد برا ہونا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پچاس سال کے بعد گذشتہ سال سولہ اگست کو سلامتی کونسل کے اجلاس اور اب ایک بار پھر سلامتی کونسل کا اجلاس میں مسئلہ کشمیر کو زیر بحث لانا پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی ہے اور ہمیں سلامتی کونسل پر مسلسل اجلاس کے لئے دباؤ برقرار رکھنا ہو گا۔
اس کے ساتھ کشمیریوں کے اند ر اتحاد و یکجہتی کی فضا کو برقرار رکھنا،بھارت کے موجودہ حکمرانوں کے ہندو توا کے نظریہ کی بنیاد پر پاکستان اور آزادکشمیر کے خلاف ناپاک عزائم کا مقابلہ کرنے کے لئے قوم کو تیار کرنا اور پاکستان اور آزادکشمیر کو معاشی اور دفاعی اعتبار سے مضبوط و مستحکم بنانا وہ چیلنجز ہیں جن سے نمٹنے کے لئے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت خطہ کو جنگ کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے اور اگر یہ جنگ ہوئی تو یہ جوہری جنگ ہو گی جس سے خطہ کے اربوں انسان اور پوری دنیا متاثر ہو گی اس جنگ کو روکنے اور اس کی ہولناکیوں سے دنیا کو آگاہ کرنا بھی ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ شرکائے تقریب کی طرف سے پوچھے گئے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے ایک سو تیس ملین نوجوانوں کو کشمیر کی تحریک کے ساتھ جوڑنا اور آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے انھیں عملی طور پر تیا ر کرنا ہو گا۔صدر آزادکشمیر نے وادی نیلم کے سانحہ کے بعد چیف سیکرٹری آزادکشمیر کے طرف سے فعال اور متحرک کردار اداکرنے پر انکی شاندار الفاظ میں تعریف کی۔