لاہور(این این آئی)محکمہ داخلہ پنجاب میں اربوں روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے،آڈیٹر جنرل پاکستان نے 17 ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں و بدعنوانیوں کی نشاندہی کردی۔ رپورٹ کے مطابق پولیس ٹرانسپورٹ شعبہ میں گاڑیوں کی مرمت کے نام پر 2 کروڑ روپے سے زائدحاصل کئے گئے جبکہ گاڑیاں سرکاری کھاتوں میں موجود نہیں تھیں۔
رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2017 کے دوران سینکڑوں پولیس ملازمین کے نام پر 16 کروڑ 80 لاکھ کی اضافی رقم غیر قانونی طور پر الاونسز کے نام پر سرکاری خزانے سے حاصل کی گئی۔رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2017 کے دوران 37ادائیگیاں کی گئیں جس میں 2 ارب 81 کروڑ 61 لاکھ روپے سے زائد ادائیگیوں کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔آڈیٹرجنرل کی رپورٹ کے مطابقپنجاب بھر کے مختلف پولیس افسران کے دفاتر، فرانزکس سائنس ایجنسی، چائیلڈ پروٹیکشن بیورو اور مختلف جیلوں میں 2 ارب 11 کروڑ 85 لاکھ روپے کی خریداری پیپرا قوانین کے بر خلاف کی گئی۔آٹھ اضلاع کے ڈی پی اووز، چار اضلاع کے سی ٹی اووز سمیت پولیس کے مختلف شعبوں میں مختص کر دہ بجٹ سے 73 کروڑ روپے زائد بغیر منظوری کے خرچ کئے گئے۔ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سی ٹی ڈی لاہور کے دفتر سمیت، جہلم، اوکاڑہ، راجن پور، سپیشل برانچ ملتان، ڈسٹرکٹ جیل لاہور، وہاڑی سمیت دیگر دفاتر میں خریداری کے لئے غیر قانون طور پر 20 کروڑ روپے سے زائد کیش کی صورت میں ادا کئے گئے۔سیکرٹ سروسز کے نام پر سی ٹی ڈی لاہور، ڈی آئی جی سکیورٹی، ہوم سیکرٹری، سپیشل برانچ، ڈی پی او سیالکوٹ، سرگودھا، خوشاب، جھنگ سمیت ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کے دفتر میں 60 کروڑ روپے سے زائد کی کیش ادائیگیوں کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔سی ٹی ڈی لاہور، سپیشل برانچ، 22 ڈی پی اووز سمیت مختلف پولیس افسران کے دفاتر میں پٹرول کی مختص کردہ مقدار سے 40 کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگیاں کی گئیں۔
پنجاب کی 10 جیلوں میں قیدیوں کو کھانا کھلانے کے نام پر 18 کروڑ 74 لاکھ روپے سے زائد کی غیر قانونی ادائیگیاں کی گئیں،ڈی پی او سرگودھا، بہاولپور، قصور، لیہ اور میانوالی کے دفاتر میں پولیس قومی رضا کاروں کے نام پر 2 کروڑ 42 لاکھ غیر قانونی زائد ادائیگیاں کی گئیں،تفتیشی اخراجات کے نام پر ڈی آئی جی انویسٹی گیشن، سی پی او راولپنڈی سمیت 11 ڈی پی اووز کے دفاتر میں 6 کروڑ 71 لاکھ روپے کی ادائیگیوں کا ریکارڈ موجود نہیں۔
آڈیٹرجنرل کی رپورٹ کے مطابق پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی توسیع کے لئے خریدی گئی کی اراضی میں 4 کروڑ 35 لاکھ روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں،مختلف ٹھیکیداروں کو خریداری کی مد میں ٹیکس کی کٹوتی نہیں کی گئی جس سے ٹھیکہ داروں کو 9 کروڑ 90 لاکھ روپے کا فائدہ پہنچا،گوجرانوالہ،لاہور، جھنگ، سرگودھا، خوشاب سمیت دیگر اضلاع میں پولیس کی جانب سے مختلف اداروں، بنکوں اور دیگر کو دی گئی سکیورٹی کی مد میں 62 کروڑ روپے سے زائد کی رقم متعلقہ افراد سے وصول نہیں کی گئی۔
مختلف اضلاع میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں کرنے والے افراد سے 17 کروڑ 10 لاکھ روپے سے زائد کی رقم جرمانے کی مد میں وصول نہیں کی گئی۔57 ایسے پولیس افسران جو نوکری سے معطل رہے یا گیارہ دن سے زائد چھٹی پر رہنے کے باوجود 3 کروڑ 26 لاکھ روپے مختلف الاونس کی مد میں وصول کرتے رہے۔کمانڈنٹ سہالا، سپرنٹنڈنٹ سپیشل برانچ ملتان، سپیشل برانچ لاہور، سی پی او راولپنڈی، ڈی پی او ننکانہ اور سی ٹی او لاہور 2015 سے 2017 کے دوران نوکری سے برخاست ہونے کے باجود 40 لاکھ روپے سے زائد تنخواہ کی مد میں وصول کرتے رہے۔ڈرائیونگ سکول فیس، ڈرائیونگ لائسنس فیس
، میڈیکل فنڈ اور کنٹین رینٹ کی مد میں 1 ارب 85 کروڑ 53 لاکھ سے زائد کی رقم قومی خزانے میں جمع نہیں کرائی گئی،پولیس کی مختلف گاڑیوں سمیت دیگر سامان کی نیلامی نہ کرنے کی وجہ سے قومی خزانے کو 47 کروڑ 88 لاکھ سے زائد کا نقصان پہنچا،پولیس رضاکاروں کو 2015 سے2016 کے دوران کی تربیت دینے والے ٹرینرز کو 6 کروڑ کی ادائیگیاں کی گئیں جبکہ تربیت سے متعلق کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔پولیس ٹریننگ کالج چوہنگ، ڈی پی او خوشاب، قصور سمیت بٹالین سات میں 31 کروڑ 59 لاکھ مبینہ طور پر گھوسٹ ملازمین پر خرچ کئے جانے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ڈسٹرکٹ جیل لاہور میں موبائل فون خیمرز کی خریداری سمیت مختلف یوٹیلٹی بلوں کی مد میں 36 کروڑ 26 لاکھ روپے قانون کے خلاف ایڈوانس میں ادا کئے گئے۔آڈٹ رپورٹ میں سی ٹی ڈی، انویسٹی گیشن، سپیشل برانچ، جیلوں سمیت مختلف اضلاع میں پولیس افسران و ملازمین کو الاؤنسزکی مد میں ادا کی گئی 88 کروڑ روپے کی رقم پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔آڈت اعتراضات سے متعلق رپورٹ پنجاب اسمبلی میں جمع کرا دی گئی ہے۔