اسلام آباد( آن لائن ) الخیر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلباء کو نوکریوں کی عدم دستیابی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ الخیر یونیورسٹی نے ملک کا ستیاناس کردیا ہے یہ یونیورسٹی آزاد کشمیر کی ہے تو نوکریاں پاکستان میں کیوں کررہے ہیں۔
پاکستان کا اس یونیورسٹی سے کیا تعلق ہے ہمارا کام صرف انصاف فراہم کرنا نہیں۔ ملکی معاملات کو بھی دیکھنا ہے ۔آئین ہمیں یہ اختیار دیتاہے کہ دیکھا جائے کہ آیا ملک کے معاملات ٹھیک سے چل رہے ہیں یا نہیں ۔ معاملہ کی سماعت جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ۔اس موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایسی کیا خاص بات ہے کہ خیرپورسندھ سے آکر لڑکے عربی کی ڈگریاں لیتے ہیں عام آدمی کو کیوں نہیں پتا کہ وہ ڈگری خرید نہیں سکتا ۔ عام آدمی ڈگری خرید کرکہتا ہے کہ ایچ ای سی سے تصدیق شدہ ہے ۔ الخیر یونیورسٹی کے وکیل نے اس موقع پر موقف اختیار کیا کہ الخیر یونیورسٹی کا ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے ساتھ الحاق ہے ۔جامعہ سے جن عام لوگوںنے ڈگریاں حاصل کیں ان کا کیا قصور ہے ؟ عدالت نے ایچ ای سی کو الخیر یونیورسٹی کی ہسٹری ، چارٹر اکائونٹس اور فیکلٹی سے متعلق تفصیلی جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے معاملہ کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی ۔