اسلام آباد(آن لائن)مسلم لیگ (ن) کے سابق دور حکومت میں وزارت پانی و بجلی کے زیر انتظام وفاقی ادارے پرائیویٹ پاور انفرااسٹرکچر بورڈ نے ایک نجی بینک میں حکومتی قوانین کے بر خلاف 31 ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کا انکشاف ہوا ہے۔ مذکورہ ادارے کی جانب سے خلاف ضابطہ اتنی بڑی رقم کی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع پر سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
گذشتہ دہائی کے ابتدائی سالوں کے دوران وزارت خزانہ کے بجٹ ونگ کی جانب سے ایک سرکاری ہدایات نامہ (آفس میمورنڈم) نمبر F 4 (1)/2002۔BR II جاری کیا گیا جس کے پیرا 4 (سرپلس فنڈز) کے مطابق سرکاری اداروں کو غیر سرکاری/نجی سیکورٹیز، ٹرم فنانس سرٹیفیکیٹس اور نجی کمپنیوں کے شیئرز میں سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی اور سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ کی حد 20 فیصد تک مقرر کی گئی۔ بجلی کے پیداواری منصوبوں میں نجی سرمایہ کاروں کو تکنیکی معاونت اور رہنمائی کے لیے بطور سہولت کار وزارت پانی و بجلی کے زیر انتظام وفاقی ادارے پرائیویٹ پاور انفرا اسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) نے سابق دور حکومت میں گذشتہ مالی سال 2016۔17 تک مجموعی طور پر فارن ڈیپازٹ اکاؤئنٹس میں سرپلس فنڈز کی مد میں 29 کروڑ 65 لاکھ 40 ہزار امریکی ڈالر کی ایک نجی بینک حبیب میٹرو پولیٹن میں سرمایہ کاری کی جو کہ پاکستانی روپوں میں 31 ارب 13 کروڑ 70 لاکھ 20 ہزار روپے بتائی گئی ہے۔ دستاویزات کے مطابق پی پی آئی بی نے فارن انوسٹمنٹ کے کْل دستیاب سرمایہ 74 کروڑ 71 لاکھ 80 ہزار امریکی ڈالر کا 40 فیصد سرمایہ مذکورہ نجی بینک میں انوسٹ کیا جو کہ 29 کروڑ 65 لاکھ 40 ہزار امریکی ڈالر کے قریب رقم بنتی ہے۔ اس حوالے سے سرکاری اداروں کے مالی حسابات کی جانچ پڑتال کے وفاقی ادارے آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بھی پی پی آئی بی کی جانب سے کی جانے والی اس سرمایہ کاری کو بے قاعدہ اور خلاف ضابطہ قرار دیتے ہوئے مذکورہ ادارے سے پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان حکام نے بھی اس بات کی تائید کی ہے کہ وزارت خزانہ کے بجٹ ونگ کی جانب سے جاری کردہ سرکاری ہدایت نامہ کے مطابق کوئی بھی سرکاری ادارہ سرپلس فنڈز کی مد میں نجی کاروباری اداروں سیکورٹیز، ٹرم فنانس سرٹیفیکیٹس اور نجی کمپنیوں کے شیئرز میں کْل دستیاب فنڈز کا صرف 20 فیصد تک کی سرمایہ کاری کر سکتا ہے جبکہ پی پی آئی بی کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری کْل دستیاب فنڈز کا 40 فیصد ہے جو کہ بے قاعدگی اور خلاف ضابطہ سرمایہ کاری کے زمرے میں آتا ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ایک اعلیٰ افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پی پی آئی بی اس معاملے کے حوالے سے رابطہ کیا گیا تو مذکورہ ادارے کی انتظامیہ نے موقف اختیار کیا انوسٹمنٹ پالیسی کے تحت سرمایہ کاری کی کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی۔ تاہم آڈیٹر جنرل پاکستان حکام کے استفسار کے باوجود مذکورہ ادارے کی انتظامیہ ابھی تک کوئی دستاویزی شواہد فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بینکاری امور کے ماہر ایک اعلیٰ افسر جو کہ ایک نجی بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا
اتنی بڑی انوسٹمنٹ کے لیے عمومی طور پر سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے نجی و سرکاری ادارے مختلف بینکوں سے شرح منافع اور آسان شرائط کے حوالے سے کوٹیشنز طلب کرتے ہیں اور بہترین شرح منافع کی پیشکش کرنے والے اداروں کے ساتھ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ بینک افسر کے مطابق عمومی طور پر پاکستانی روپوں میں سرمایہ کاری کے اوپر شرح منافع مکٹلف بینکوں کی جانب سے کم سے کم 4 سے 4.5 فیصد اور زیادہ سے زیادہ 6 سے 7 فیصد تک کی پیشکش کی جاتی ہے تاہم فارن کرنسی اکاؤنٹس پر شرح منافع کم از کم ایک سے 1.5 فیصد جبکہ زیادہ سے زیادہ سے زیادہ 2 سے 3 فیصد کی پیشکش کی جاتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت ٹاپ رینکنگ کی فہرست میں جو پہلے 5 بینک شامل ہیں ان میں نیشنل بینک آف پاکستان ، حبیب بینک لمیٹڈ، الائیڈ بینک لمیٹڈ، مسلم کمرشل بینک اور یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ شامل ہیں۔ جبکہ حبیب میٹروپولیٹن بینک دوسری کیٹیگری میں شامل بینکوں کی فہرست میں بھی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر خلاف ضابطہ یا ایک مقررہ حد سے زائد کی کوئی سرمایہ کاری کی گئی ہو تو عمومی طور پر شرح منافع اسی ادارے کے اکاؤنٹ میں منتقل کیا جاتا ہے جس اکاؤنٹ سے سرمایہ کاری کی گئی ہو تاہم بعض اوقات یہ بات بھی مشاہدے میں آتی ہے کہ بینک میں اتنی بڑی سرمایہ کاری میں سرمایہ کار منافع کا حصول پے آرڈر کی شکل میں وصول کرنے کی شرط رکھتا ہے جس میں مالی بے ضابطگی کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔