اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف کالم نگار محمد بلال غوری اپنے آج کے کالم میں عمران خان کی جانب سے عہدوں کیلئے نامزد تحریک انصاف کے رہنمائوں کا کچا چٹھا کھولتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے نامزد وزیراعلیٰ محمود خان کے بارے میں تو آپ جان ہی چکے ہونگے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں جب وہ صوبائی وزیر کھیل تھے تو انہوں نے مبینہ طور پر سرکاری فنڈز
محکمہ اسپورٹس کے بینک اکائونٹ سے نکلوا کر اپنے ذاتی بینک اکائونٹ میں منتقل کر دیئے اور جب یہ بات میڈیا میں آئی تو اسکی وضاحت یہ پیش کی گئی کہ صوبے بھر میں ہونیوالی تقریبات میں کھلاڑیوں کو نقدرقوم دینے کیلئے یہ فنڈز نکلوائے گئے۔پنجاب کا وزیر اعلیٰ کون ہو گا ؟اگرچہ یہ فیصلہ ابھی نہیں ہوا ،نیب زدہ علیم خان کا نام عوامی دبائو کے باعث پیچھے جا چکا ہے لیکن چکوال کے ایک نوجوان ایم پی اے راجہ یاسر ہمایوں سرفراز جن کا نام میڈیا میں سرفہرست ہے انہیں مبینہ طور پر ڈرگ کورٹ سے سزا ہو چکی ہے ،اڈیالہ جیل کی یاترا کرچکے ہیں اور ان دنوں ضمانت پر باہر ہیں ۔مبینہ طور پر چکوال میں ایک ایسا تعلیمی ادارہ چلاتے ہیں جس پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اعتراض ہے ۔سابق وزیر قانون بابر اعوان کا شمار بھی عمران خان کے نورتنوں میں ہوتا ہے جنکے بارے میں اطلاعات ہیں کہ انہیں وزیراعظم کا مشیر یا معاون خصوصی بنایا جائیگا، ان پر نندی پور پاور پروجیکٹ میں 27ارب روپے کرپشن کا کیس اب بھی التوا کا شکار ہے اور سپریم کورٹ نے جب یہ کیس ری اوپن کیا تو نیب نے جمع کروائی گئی رپورٹ میں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اس وقت کے وزیر قانون بابراعوان اس نقصان کے ذمہ دار ہیں۔نعیم الحق ،عون چوہدری اور عامر کیانی جیسے لوگ بھی کپتان کے نورتنوں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں حکومت سازی کے بعد ـ’’کچن کیبنٹ ‘‘ کا درجہ حاصل ہو گا ۔ان کی کیا خدمات ہیں اور یہ کن خصوصیات کے حامل ہیں ،بہتر معلوم ہوتا ہے کہ نئے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں اغماض اور چشم پوشی ہی اختیار کی جائے کیونکہ ’’مشیروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے ‘‘ والی بات یہاں بھی صادق آتی ہے۔بہر حال خاکم بدہن، ان نورتنوں کیساتھ عمران خان حکومت کی پچ پر ایک بڑی اننگز کھیلتے نظر نہیں آتے۔