پیر‬‮ ، 18 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پیرنی بلی کے بعد مائی اونٹنی کے مزار کا بھی انکشاف بے اولاد افراد سے اس مزار پر کیا کام کروایا جاتا ہے جو صرف 100میں سے ایک ہی شخص کر پاتا ہے،

datetime 16  فروری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )سندھ کے شہر دادو میں ایسے مزار کا پتہ چلا ہے جہاں ایک اونٹنی کی قبر ہے اور عقیدت مند اس کے گرد 7چکر کاٹتے ہیں۔ پاکستان کے موقر قومی اخبارروزنامہ امت کی رپورٹ کے مطابق گاجی شاہ مزار پر مریدین حصول اولاد کیلئے سانس بند کر کے 7چکر لگاتے ہیں۔ 100میں سے ایک شخص ہی چکر مکمل کر پاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ سانس بند رکے قبر کے

گرد 7چکر کاٹنے سے مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی رسم کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے ہے ۔ اسی مزار کے قریب بلی کی قبر بھی بنی ہے جس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے ۔ دوڑنے کی رسم اپنی جگہ لیکن گاجی شاہ کے مزار پر جنات کے ستائے لوگوں کو سکون ملتا ہے۔واضح رہے کہ گاجی شاہ سے متعلق تاریخی حوالوں کے مطابق سید پیر گاجی شاہ المعروف پیر گاجی شاہ گنج بخش کا اصل نام سید غازی شاہ تھا جو عرفِ عام میں گاجی شاہ مشہور ہو گیا۔ آپ اچ شریف سے کمسن عمر میں اپنے والد کے ساتھ سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل جوہی کے شہر ٹنڈو رحیم خان کے کھوسہ قبیلے کے سردار روحل کھوسہ کے علائقے میں آئے اور دلشاد کھوسہ کے والد کے ہاں قیام پزیر ہوئے۔ اس وقت اس علاقے کے گاؤں واہی، ہلیلی، ٹنڈو رحیم خان، ٹوڑی اور گورنڈی پر کھوسہ قبیلے کا بڑا اثر رسوخ تھا جو میاں نصیر محمد کلہوڑو کی میانوال تحرک کے حامی تھے۔ آپ کے والد نے کچھ وقت قیام کے بعد حج کا ارادہ کیا اور دلشاد کھوسہ کے والد کو کہا کہ سید بلاول شاہ نورانی کی زیارت کے بعد حج کو جاؤں گا۔ میرا بیٹا غازی شاہ چھوٹا ہے۔ ہو سکتا ہے اتنا لمبا سفر کر نہ سکے۔ دلشاد کھوسہ کی ماں رانی نے عرض کیا کے یہ بچہ میرے حوالے کریں آپ مرشد ہیں جب بھی لوٹیں مجھ سے لے لینا۔ سید احمد شاہ نے یہ ہی کیا اورحج کو چلے گئے لیکن پھر کبھی واپس نہیں آئے۔

سید گاجی شاہ رانی کے گھر دلشاد کھوسہ کے ساتھ پل پوس کر بڑے ہوئے۔ بچپن سے کرامات اور شجاعت دکھانے شروع کیں۔ سید گاجی شاہ کا کھوسہ قبیلہ مرید ہو گیا۔ بڑے ہو کر نہ صرف بزگ ہستی کے طور پر مشہور ہوئے مگر میاں نصیر کلہوڑو کے ساتھی اور سپہ سالار بھی بنے ۔ گاجی شاہ کی کرامات نے لوگوں کو متوجہ کیا۔ میاں نصیر محمد کلہوڑو اس بزرگ کی بڑی عزت اور قدر کرنے لگا۔

اس حد تک کہ میانوال تحریک کی آزی (دعا ئے ارادہ) میں گاجی شاہ کا نام شامل کیا۔ اس زمانے میں خان آف قلات میر احمد اول (1666ء-1695ء) کے سندھ پر حملے کے خطرات بڑھ گئے تھے۔ میاں نصیر محمد کلہوڑو نے سید گاجی شاہ کو ٹنڈو رحیم لک (گزرگاہ) پر مقرر کیا۔آپ بڑے غریب نواز اور سخی تھے ۔ ان کے مسکن پر رات دن عام خاص کے لیے لنگر چلتا تھا جس میں کوئی کمی نہ تھی۔

اس وجہ سے آپ کو گنج بخش کا لقب ملا۔ آپ کے مزار کے قریب مسکن تھا۔ اس مسکن کے ساتھ ساتھ دھونک کی وادی ہے۔ آپ کو دھونک جو دھنی (دھونک وادی کا مالک) کا لقب دیا گیا۔ پہاڑوں میں سے آنے والےچشمے کے نالے کے پانی پر قریبی دھونک کی وادی سیراب ہوتی تھی۔ اس پر اگنے والی فصل کی پیداوار آپ کے لنگر خانے کے حوالے ہوتی تھی۔ گاجی شاہ کے لنگر میں عام خاص کو

زیادہ تر جو روٹی کھلائی جاتی تھی اسے گاجی شاہ کا روٹ (بڑی روٹی) کہتے ہیں۔ روٹ آج بی تبرک کے طور مزار پر بانٹا جاتا ہے۔ جنات سید گاجی شاہ کی مٹھی میں تھے اس وجہ سے اسے جنات کے بادشاہ کا لقب بھی دیا گیا اور آج بھی اس لقب سے مشہور ہیں۔سید گاجی شاہ کا مزار مسجد کے احاطے میں ہے جو بہت بلند پہاڑی پر وقع ہے۔ ان کے مزار کی دیواروں پر نقش نگاری بھی تھی

مگر ہر سال مرمت کی وجہ سے مٹ گئی۔ مزار کی دیکھ بھال کرنے پر کھوسہ قبیلے کے لوگ مقرر ہیں۔ سید گاجی شاہ کی گادی نشینی بھی کھوسہ قبیلے کے حوالے ہے جو خود کو فقیر کہلواتے ہیں۔ گاجی شاہ کا مزار اعلى طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔سید گاجی شاہ کی بہت کرامات بیان کی جاتی ہیں مگر ان کی اہم کرامت یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہاں کے لوگ پینے کے پانی کے لیے پریشان تھے۔

گاجی شاہ نے کرامت سے پہاڑوں میں سے پانی کا چشمہ بہایا جو بنجو آبشار کے نام سے مشہور ہے۔ یہ پانی آج بھی نالے کی صورت میں بہتا ہے۔سید گاجی شاہ کو سماع کا شوق تھا۔ سرندہ کا ساز اسے بہت پسند تھا۔ علائقے کے سرندہ نواز جمع ہوتے تھے۔ ان کے مسکن پر اکثر سرندہ پر سماع کی محفل منعقد ہوتی تھی۔ محفل سماع کا حاضرین پر سحر اور جنون طاری ہو جاتا تھا۔ آج بھی ان کے

مزار پر سرندہ پر محفل سماع منعقد ہوتی ہے۔ اور جنات کو ختم کرنے کے لیے بھی سرندہ کا ساز بجایا جاتا ہے اور جنات کے متاثر مرد اور خواتین جنون میں سر ہلاتے ہیں۔ پھر جتات کو تنگ نہ کرنے کے لیے گاجی شاہ کی قسمیں دی جاتی ہیں۔ جنات وعدہ کرتی ہے کہ اب انہیں تنگ نہیں کرے گی۔آپ بڑے غریب نواز اور سخی تھے ۔ ان کے مسکن پر رات دن عام خاص کے لیے لنگر چلتا تھا جس

میں کوئی کمی نہ تھی۔ اس وجہ سے آپ کو گنج بخش کا لقب ملا۔ آپ کے مزار کے قریب مسکن تھا۔ اس مسکن کے ساتھ ساتھ دھونک کی وادی ہے۔ آپ کو دھونک جو دھنی (دھونک وادی کا مالک) کا لقب دیا گیا۔ پہاڑوں میں سے آنے والےچشمے کے نالے کے پانی پر قریبی دھونک کی وادی سیراب ہوتی تھی۔ اس پر اگنے والی فصل کی پیداوار آپ کے لنگر خانے کے حوالے ہوتی تھی۔ گاجی شاہ کے

لنگر میں عام خاص کو زیادہ تر جو روٹی کھلائی جاتی تھی اسے گاجی شاہ کا روٹ (بڑی روٹی) کہتے ہیں۔ روٹ آج بی تبرک کے طور مزار پر بانٹا جاتا ہے۔ جنات سید گاجی شاہ کی مٹھی میں تھے اس وجہ سے اسے جنات کے بادشاہ کا لقب بھی دیا گیا اور آج بھی اس لقب سے مشہور ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟


سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…