پیر‬‮ ، 18 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مسلم لیگ (ن)کے پاس 18 سال بعد نئی تاریخ رقم کرنے کا موقع،سینٹ انتخابات میں تمام ایم پی ایز نے پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دیئے تو کیا ہوگا؟چونکادینے والے انکشافات

datetime 5  فروری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)بلوچستان میں سیاسی دھچکے کے باوجود امکا ن ہے کہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ( ن) 18 سال بعد سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بن جائے گی ۔قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر تمام ایم پی ایز پارٹی پالیسی کے مطابق 3 مارچ کو ووٹ دیں گے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کو 104 ارکان کی نشستوں میں سے 30 سے زائد نشستیں ضرور ملیں گی۔واضح رہے کہ 2 فروری 2018 کو الیکشن کمیشن نے

اسلام آباد کی 2 اور فاٹا کی 4 سینیٹ نشستوں کے علاوہ دیگر سینیٹ نشستوں پر انتخابات کے شیڈول کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھاجس کے مطابق سینیٹ انتخابات کیلئے پولنگ 3 مارچ 2018 کو ہوگی، تاہم بعد ازاں اتوار 4 فروری کو الیکشن کمیشن کی جانب سے وفاقی دارالحکومت کی دو نشستوں پر بھی انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا گیا تھا، جس کے مطابق ان نشستوں پر بھی انتخاب 3 مارچ کو ہی ہوں گے۔ انتخابی شیڈول کے مطابق 52 میں سے 48 سینیٹز کا انتخاب 3 مارچ کو ہوگا، جس میں پنجاب اور سندھ سے12 ، 12 جبکہ خبیر پختونخوا اور بلوچستان سے بھی 11، 11 سینیٹرز منتخب ہوں گے جبکہ اسلام آباد سے 2 سینیٹز کا انتخاب کیا جائے گا۔سیاسی ماہرین کے مطابق بلوچستان کے علاوہ دیگر صوبوں میں سینیٹ کے نتائج گزشتہ انتخابات کی طرح رہیں گے اور اس میں کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے مطابق وہ پنجاب میں خواتین، ٹیکنوکریٹ اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سمیت تمام 12 نشستیں جیت کر کلین سویپ کرے گی کیونکہ صوبائی اسمبلی میں 371 ارکان میں سے 310 ایم پی ایز مسلم لیگ (ن) سے ہیں جبکہ 30 رکن اسمبلیوں کا تعلق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ہے تاہم کچھ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں اتفاق رائے سے امیدوار لانے اور مسلم لیگ (ن) کے کچھ ایم پی ایز کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے

تو وہ پنجاب سے سینیٹ کی ایک نشست جیت سکتے ہیں۔اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) اسلام آباد کی دونوں نشستیں جیتنے کے لیے تیار ہے کیونکہ سینیٹر مشاہد حسین سید جو مسلم لیگ (ق) کی نشست سے مارچ میں بطور سینیٹر مستعفی ہورہے ہیں، وہ دوبارہ اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹر بن جائینگے ۔موجودہ صورتحال میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹز کی تعداد 27 ہے، جن میں سے 9 آئندہ ماہ مارچ میں ریٹائرڈ ہورہے ہیں اور حکمران جماعت کو امید ہے کہ وہ کم از کم 15 نشستیں جیتنے

میں کامیاب ہوگی اور ایوان بالا میں اپنے ارکان کی تعداد 33 تک پہنچا دے گی۔اس کے علاوہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں (ن) لیگ کے 16 ایم پی ایز ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ اس صوبے سے سینیٹ کی ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہوں گے۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ق) اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے کیونکہ ان کی پارٹی سینیٹ سے ختم ہونے کے دہانے پر ہے اور ان کے چاروں سینیٹرز 11 مارچ کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور تمام صوبائی اور قومی اسمبلی میں پارٹی کی پوزیشن کو

دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ق) سینیٹ انتخابات میں کوئی نشست جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ادھر پاکستان تحریک انصاف جسے 2015 میں پہلی بار سینیٹ میں نمائندگی حاصل ہوئی تھی وہ مارچ کے انتخابات کے بعد اپنی طاقت کو دوگنا کرنے کیلئے پر امید ہے ٗپی ٹی آئی خبیر پختونخوا اسمبلی کی 11 میں سے 6 نشستیں جیتنے کی امید رکھتی ہے جبکہ حکمران جماعت کے ایم پی ایز کی تعداد 61 ہے۔صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے

اتحادی ہونے کے باعث اس بات کا بھی امکان ہے کہ خیبرپختونخوا سے جماعت اسلامی بھی سینیٹ کی ایک نشست حاصل کرسکے گی۔ان دونوں جماعتوں کے علاوہ خیبرپختونخوا میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ف) کو بھی ایک ایک نشستیں ملنے کا امکان ہے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور قومی وطن پارٹی کی جانب سے کوئی بھی نشست حاصل کرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔سینیٹ انتخابات میں نشستوں کے حوالے سے بات کی جائے تو پیپلز پارٹی سندھ کی 12 نشستوں میں سے

8 نشستیں جیتنے کے لیے پر امید ہے کیونکہ صوبائی اسمبلی میں 168 ارکان میں 94 ایم پی ایز صوبائی حکمران جماعت کی حامی ہیں تاہم سندھ میں سینیٹ کی باقی 4 نشستوں پر دلچسپ مقابلہ ہوسکتا ہے کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) کے مختلف دھڑے بن چکے ہیں اور صوبائی اسمبلی میں ان کے ایم پی ایز کی تعداد 50 ہے اور اگر یہ سب فاروق ستار کی قیادت میں متحد رہتے ہیں تو سینیٹ کی 4 نشستیں آرام سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔باقی چار نشستوں کے مقابلہ میں متنازعہ تحریک تحریک (ایم کیو ایم) کے

اندر ڈویڑن کے بعد دلچسپی ہوگی، جس میں 50 ایم پی اے ہیں یہ خیال ہے کہ اگر ایم کیو ایم ڈاکٹر فاروق ستار کے تحت متحد رہتا ہے تو پھر پارٹی کو باقی چار نشستیں آسانی سے حاصل کرسکتی ہیں۔سینیٹ میں نمائندگی کی بات کی جائے تو پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان ہونے والا ہے کیونکہ اس کے 26 سینیٹر میں سے 18 سینیٹز مارچ میں ریٹائر ہورہے ہیں اور آئندہ سینیٹ انتخابات میں انہیں 9 سینیٹ کی نشستیں جیتنے کی امید ہے جس کے بعد ایوان بالا میں ان کی نمائندگی کم ہو کر 17 ارکان پر رہ جائے گی۔



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…