عدلیہ مقدس گائے نہیں، کیا چیف جسٹس سیاہ اور سفید کرے انہیں کوئی نہ پوچھے؟ عدلیہ عوامی پیسوں پر چل رہی ہے اور عوام سب کا احتساب کر سکتے ہیں

1  فروری‬‮  2018

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس فرخ عرفان خان نے لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار خورشید انور رضوی کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن معطل کردیا ہے، دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ مقدس گائے نہیں، کیا چیف جسٹس سیاہ اور سفید کرے انہیں کوئی نہ پوچھے؟ عدلیہ نے اپنی عزت خود کرانی ہے، ہم نے عدالتی نظائراورقانون کے تحت ہی فیصلے کرنے ہیں، ہر ایک کو آگے بڑھنا ہے تاکہ ملک میں احتساب اور شفافیت کا عمل آگے بڑھے،

عدلیہ عوامی پیسوں پر چل رہی ہے اور عوام سب کا احتساب کر سکتے ہیں۔تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس فرخ عرفان خان نے سیشن جج خورشید انور رضوی کی بطور رجسٹرار تقرری ، ان کی قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کے خلاف اور ان کی طرف سے سپیشل جوڈیشل الانس کی مد میں وصول کی گئی رقم کی واپسی کے لئے دائر درخواست کی سماعت کی ۔ایک شہری کی طرف سے اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی وساطت سے دائر درخواست کی سماعت پر فاضل جج نے ایڈووکیٹ جنرل کو فوری نوٹس پر طلب کیا اور ان سے استفسار کیا کہ عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ عدالت عالیہ کی انتظامی کمیٹی کی منظوری کے بغیر رجسٹرار کی تعیناتی کیسے ہوئی؟رجسٹرار نے چیف جسٹس کی جتنی خدمت کی ہے اس حساب سے انہیں فراہم کی جانے والی 4 لاکھ ماہانہ روپے کی مراعات بھی کم دکھائی دیتی ہیں۔بتایا جائے چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب پولیس اور رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو کس قانون کے تحت چار لاکھ روپے ماہانہ خصوصی الانس دیا جارہا ہے ۔ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ چیف جسٹس کے انتظامی فیصلے کو رٹ پٹیشن کے ذریعے چیلنج نہیں کیا جا سکتا،یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے ،ایڈووکیٹ جنرل نے مزید استدعا کی کہ کیس کی سماعت بند کمرے میں کی جائے،عدالت نے درخواست کو ناقابل سماعت قراردینے اور کیس کی بند کمرے میں سماعت سے متعلق ایڈووکیٹ جنرل کی استدعا مسترد کرتے ہوئے مذکورہ ریمارکس دیئے اور مزید قرار دیا کہ مفاد عامہ کی درخواست کی بند کمرے کی سماعت نہیں کی جاسکتی،

آئین کے آرٹیکل 10(اے )کے تحت کسی کو شفاف ٹرائل کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتادرخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ جوڈیشل امور انجام دینا والے عدالتی افسر کورجسٹرار تعینات نہیں کیا جاسکتا۔ہائیکورٹ کی اسٹیبلشمنٹ سے ہی کسی افسرکو رجسٹرار تعینات کیا جانا قانون کا تقاضہ ہے۔خورشید انور رضوی کو قانونی تقاضوں کو نظر انداز کرکے نہ صرف رجسٹرار مقرر کیا گیا بلکہ بطور رجسٹرار انہیں4لاکھ روپے ماہانہ خصوصی الانس بھی دیا گیا۔وہ اپریل میں ریٹائر ہونے والے تھے لیکن انہوں نے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کی درخواست کی جو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے منظور کرلی ،اب وہ 3فروری کو ریٹائر ہونے والے ہیں وکیل نے کہا کہ رجسٹرار کی رہائش گاہ کو ہائی کورٹ کا کیمپ آفس قراردینے ،ان کے تقرر اور خصوصی مراعات کالعدم کی جائیں۔عدالت نے نے رجسٹرار خورشید انور رضوی کی ،قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے پنجاب حکومت، رجسٹرار اور دیگر مدعاعلیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…