اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وفاقی وزیر بجلی و پانی اور اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف و دیگر افراد کے خلاف 100ارب روپے سے زائد کی کرپشن طشت ازبام کرنے والے نیب کے افسر کامران فیصل جن کی پراسرار موت نے کئی سوالات اٹھادئیے تھے، کامران فیصل اسلام آباد میں اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے تھے اور ان کی موت کو خودکشی قرار دیا گیا
تھا مگر بعد میں کامران فیصل کی قبر کشائی کی گئی اور فرانزک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ کامران فیصل نے خودکشی نہیں کی بلکہ انہیں قتل کیا گیا تھا۔اس قتل کیس کی جے آئی ٹی کی رپورٹ 2013ءمیں سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس پر آج تک سنوائی نہیں ہو سکی ہے۔ نیب کے افسر کامران فیصل کی بیٹی ایمن نے اب چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے نام ایک کھلا خط تحریر کیا ہے جس میں ایمن لکھتی ہے کہ جب میرے ابوقتل کئے گئے اس وقت میں کلاس نرسری میں تھی اور آج کلاس فور میں، لوگ تو میرے بابا کو بھول چکے ہیں لیکن آپ یقینا نہیں بھولے ہوں گے، میری سہیلی نے مجھے بتایا کہ آپ نے حال ہی میں 17 سال تک انصاف ڈھونڈنے والی ایک بیوہ خاتون کو انصاف دلایا ہے، آپ نے جب سے خود کو بابا رحمتا کہا، بلا امتیاز اور فوری انصاف کی یقین دہانی کروائی، ننھی زینب کے قاتلوں کو عبرت کا نشان بنانے کا عندیہ دیا، تب سے مجھے امید ہوچکی ہے کہ آپ میرے بابا کے قاتلوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔ ننھی زینب کی کچرے کے ڈھیر پر پڑی لاش میں آپ کو اپنی بیٹی ضرور دکھی ہوگی،کیا بتاؤں انکل ننھی زینب تو ایک بار مرچکی، آپ کی یہ بیٹی تو روز مرتی اور روز جیتی ہے۔ننھی ایمن نے خط میں ایک شعر بھی لکھا ہے ۔’’کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے۔۔مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا‘‘۔ شہید کامران فیصل کی
ننھی بیٹی اپنے خط میںچیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے مزید لکھتی ہے کہ آپ کو کامران فیصل قتل کیس کا نہیں بتایا گیاہوگا، انکل! میں آپ کو بتاتی ہوں کہ اس کیس کی فائل کس سرد خانے میں پڑی ہے، انکل میرے بابا کو 2013ءمیں شہید کیا گیا۔ میری ماما نے مجھے بتایا کہ بابا کی شہادت کو وقت کے فرعونوں نے خود کشی کا نام دیا لیکن فرانزک رپورٹ نے قبر کشائی کے بعد اعتراف کیا کہ
یہ قتل تھا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ 2013ءمیں سپریم کورٹ میں جمع ہوئی اور آج تک اس کیس کی باری نہیں آئی۔ میں نے جب اپنی سہیلی کو بابا کی پانچویں برسی کا بتایا تو اس نے ڈھارس بندھوائی اور کہا کہ یہ برسی آنسوؤں سے مت مناؤ، آؤ انکل ثاقب کو بتائیں، وہ کچھ بھی ہو جائے تمہارے بابا کو ضرور انصاف دیں گے۔ وہ تو یہ بھی کہہ رہی تھی کہ اس نے کہیں پڑھا ہے کہ معاشرے ظلم پر
تو قائم رہ سکتے ہیں لیکن ناانصافی پر نہیں۔ انکل اگر یہ ظالم آپ سے بھی مضبوط ہیں تو پھر میں اگلا خط سب سے بڑی اور اللہ کی عدالت میں لے جاؤں گی، اللہ میاں ظالموں کی پکڑ ے پہلے آپ سے ایک بار یہ ضرور پوچھیں گے کہ میں نے آپ کو انصاف کی سب سے بڑی مسند پر اس لئے بٹھایا تھا کہ آپ مظلوم کی داد رسی کریں، کسی کی آہ میرے عرش تک نہ پہنچنے پائے،ا گر یہ سوال آپ سے
اللہ میاں نے پوچھ لیا کہ زینب، ایمن جیسی ہزاروں مظلوم آوازوں پر آپ نے جنبش قلم اور انصاف کے علم سے کتنا انصاف کیا، اگر یہ ایک بار بھی پوچھ لیا تو آپ کے پاس کیا جواب ہوگا۔انصاف کی منتظر آپ کی بیٹیا یمن بنت کامران فیصل۔