اسلام آباد (این این آئی) کراچی میں حیدرآباد موٹروے پر ایف ڈبلیو او نے کام شروع کر رکھا ہے۔ یہ بی او ٹی کی بنیاد پر بنائی جارہی ہے۔ کراچی سے سکھر موٹروے 296 کلو میٹر 163 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہوگی۔ نگہت پروین میر کے پشاور طورخم موٹروے کے حوالے سے سوال کے جواب میں شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ پشاور طورخم موٹروے 281 کلو میٹر کا منصوبہ ہے،قومی اسمبلی کو بتایاگیا ہے کہ ارکان اسمبلی کی بنیادی تخواہ 60روپے سے بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ روپے کر دی ہے ٗ
اس حوالے سے کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں صرف نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا ٗ نئی گیس سکیموں پر عائد پابندی ہٹانے کے حوالے سے ایک تجویز کابینہ میں پڑی ہے ٗدو نئے ایل این جی گیس ٹرمینل دسمبر 2017ء تک مکمل ہونے تک گیس کی قلت میں کافی حد تک کمی آجائیگی ٗ اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ کی باقاعدہ چیکنگ کا نظام موجود ہے‘ گیس منصوبہ تکمیل کے مرحلے میں نہیں ٗ صرف ایل این جی گیس قطر سے اوپن مارکیٹ سے خریدی جارہی ہے۔بدھ کو قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بجٹ کے دنوں میں ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کا وعدہ پورا کردیا ہے ٗ بعض تکنیکی وجوہات کی بناء پر تاخیر ہوئی۔ اس وقت دونوں ایوانوں کے ارکان کی بنیادی تنخواہ 46400 ہے
اور ایڈہاک الاؤنس سمیت اب 66 ہزار ہوگئی ہے ٗاس طرح چیئرمین سینٹ ‘ ڈپٹی چیئرمین سینٹ‘ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے فی الحال نئے قانون کی ضرورت نہیں ہے۔ بجٹ کے موقع پر فنانس بل میں پہلے یہ یہ شق شامل کرکے وفاقی حکومت کو اختیار دے دیا گیا تھا۔ صرف نوٹیفکیشن جاری ہوگا۔نواب محمد یوسف تالپور کے سوال کے جواب میں کراچی میں حیدرآباد موٹروے پر ایف ڈبلیو او نے کام شروع کر رکھا ہے۔ یہ بی او ٹی کی بنیاد پر بنائی جارہی ہے۔ کراچی سے سکھر موٹروے 296 کلو میٹر 163 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہوگی۔ نگہت پروین میر کے پشاور طورخم موٹروے کے حوالے سے سوال کے جواب میں شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ پشاور طورخم موٹروے 281 کلو میٹر کا منصوبہ ہے۔ وزیراعظم کے ویژن کے تحت پاکستان کو خطہ کا تجارتی مرکز بنانا ہے۔ وزیر مملکت جام کمال نے بتایا کہ نئی گیس سکیموں پر عائد پابندی ہٹانے کے حوالے سے ایک تجویز کابینہ میں پڑی ہے اس معاملے پر کابینہ کی ایک کمیٹی بھی بنائی جائے گی۔ وزیر مملکت نے کہا کہ گیس فیلڈز میں ملازمتوں کے حوالے سے ترجیح مقامی افراد کو دی جاتی ہے ٗ
بعض اوقات تکنیکی اور تعلیمی ضروریات پوری نہ ہونے پر دیگر اضلاع اور تحصیلوں سے ملازمتیں رکھی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 400 سے 500 ایم ایم سی ایف ایل این جی‘ سی این جی‘ صنعتی شعبوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ یہ گھریلو صارفین کو فراہم نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ گیس کی لت پر قابو پانے کے لئے نئے ذخائر کی دریافت سمیت متعدد اقدامات اٹھائے جارہے ٗ دو نئے ایل این جی گیس ٹرمینل دسمبر 2017ء تک مکمل ہونے تک گیس کی قلت میں کافی حد تک کمی آجائے گی۔پارلیمانی سیکرٹری طلال چوہدری نے کہا کہ اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ کے حوالے سے متعلقہ ادارہ سہ ماہی بنیادوں پر ٹیسٹ کے لئے سیمپل لئے جاتے ہیں۔ باقاعدہ چیکنگ کا نظام بھی موجود ہے۔ پی کیو سی ایس ای حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری طلال چوہدری نے کہا کہ کوکنگ آئل اور گھی کے حوالے سے نارتھ اور ساؤتھ دو زونز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
گھی کے 198 برانڈ رجسٹرڈ ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اختیار صوبوں کے پاس چلا گیا ہے۔ امپورٹ پر بھی ہر کنسائنمنٹ کو باقاعدہ چیک کیا جاتا ہے۔ جو امپورٹر معیار پر پورا اترتے ہیں انہیں ایک سال کے لئے لائسنس دیا جاتا ہے۔ آسیہ ناز تنولی کے سوال کے جواب میں طلال چوہدری نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ ہوٹلوں کو چیک کرنا ہمارا مینڈیٹ نہیں ہے۔ ہم پلانٹس کو چیک کرکے معیار یقینی بناتے ہیں۔ موبائل لیبارٹریاں کسی بھی جگہ جاکر چیک کر سکتی ہیں۔ وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 25 جون 2016ء کو تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریوں کو خط لکھا ہے جو ان کے زیر کنٹرول کام کرتے ہیں۔ ان کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ کوشش کی جائے گی کہ 55 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو ذمہ داریاں تفویض کی جائیں۔ ایوان کو بتایا گیا کہ ابھی تک الیکشن کمیشن نے فیصلہ نہیں کیا کہ صوبائی یا قومی اسمبلی کے ملازمین کو انتخابات کے حوالے سے ذمہ داریاں سونپنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ نعیمہ کشور خان کے ضمنی سوال کے جواب میں وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے کہا
کہ انتخابی عملہ کی مناسب تربیت کا بھی پروگرام بنایا گیا ہے۔وزیر مملکت جام کمال نے کہا کہ جب ہماری حکومت برسر اقتدار آئی تو ہزاروں درخواستیں زیر التواء تھیں۔ کوئی پالیسی نہیں تھی۔ گیس کنکشنوں پر سفارشات کے کلچر کے خاتمے کے لئے 25 ہزار روپے کی ادائیگی پر ارجنٹ کنکشن کی پالیسی بنائی گئی تھی۔ وزیر مملکت جام کمال نے بتایا کہ آر ایل این جی کی قیمتوں کے حوالے سے اپٹما نے تحفظات کا اظہار کیا ہے ٗ سی این جی اور صنعتوں سے آر ایل این جی کی یکساں شرح سے قیمت وصول کی جارہی ہے مگر بعض جگہوں پر صنعتیں عام گیس استعمال کرتی ہیں۔ آر ایل این جی صنعتوں کے لوڈ مینجمنٹ کو بہتر بنانے کے لئے دیا گیا ہے۔ ہمارے اپنے گیس کے ذخائر ناکافی ہیں۔ طلب اور رسد میں فرق کی وجہ سے ایل این جی لائی گئی ہے۔وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ حیدرآباد سکھر موٹروے چھ رویہ 296 کلو میٹر ہے۔ دس فروری کے پری کوالیفکیشن کے لئے درخواست دی ہے۔ اگلے سال جون سے پہلے اس پر کام کا آغاز ہو جائے گا۔