اسلام آباد (نیوزڈیسک) قومی اسمبلی نے پاک افغان سرحد کی سیکیورٹی مضبوط بنانے کیلئے موثر اقدامات اٹھانے کی قرارداد کی منظوری دیدی ہے جبکہ پارلیمانی سیکرٹری داخلہ مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاک افغان بارڈر کراس کرنے والوں کو نارا اور نادرا کے ڈیٹا بیس کے مطابق راہداری پاس دینے کے عمل کو خودکار بنایا جارہا ہے‘ ایف آئی اے کے قواعد لاگو کرنے کیلئے سمری صدر مملکت کو ارسال کردی ہے ایک سافٹ ویئر ڈویلپ کرکے پاکستان آنے والوں کو مانیٹر کیا جائے گا۔ منگل کو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے مراد سعید نے قرارداد پیش کی کہ اس ایوان کی رائے ہے کہ حکومت پاکستان افغانستان سرحد کی سیکیورٹی مضبوط کرنے کے موثر اقدامات کرے۔ پارلیمانی سیکرٹری داخلہ مریم اورنگزیب نے کہا کہ بارڈر کراس کرنے والوں کو نارا اور نادرا کے ڈیٹا بیس کے مطابق راہداری پاس دینے کے عمل کو خودکار بنایا جارہا ہے۔ اب اس حوالے سے ایف آئی اے کے قواعد لاگو کرنے کےلئے سمری صدر مملکت کو ارسال کردی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں وزارت دفاع‘ وزارت تجارت اور ایف بی آر کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔ مراد سعید نے کہا کہ اڑھائی سال قبل قومی داخلی پالیسی تشکیل دی گئی مگر اس کے بعد اے پی ایس اور چارسدہ کے واقعات رونما ہوئے۔ پارلیمانی سیکرٹری داخلہ مریم اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے قومی داخلی پالیسی کو مدنظر رکھ کر ہی نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا ہے۔ ہم اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہیں۔ مراد سعید نے قرارداد کے حق میں بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے روزانہ غیر قانونی طور پر ہزاروں لوگ بارڈر کراس کرتے ہیں۔ اس لئے دہشت گرد بھی آسکتے ہیں اس کا سدباب ہونا چاہیے۔ عائشہ سید نے کہا کہ افغانستان سے اسلحہ اور غیر قانونی گاڑیوں کی آمد کا سلسلہ روکنے کے لئے فی الفور اقدامات اٹھائے جائیں عبدالستار باچانی نے بھی قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے راستے پاکستان داخل ہونے والے دہشت گردوں کا راستہ روکنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ بارڈر کی سیکیورٹی مضبوط کرنا قومی پالیسی ہے‘ حکومت کو اس قرارداد کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ مولانا گوہر شاہ نے کہا کہ ہم دہشتگردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور پاک افغان بارڈر کی سیکیورٹی مضبوط کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عبدالقہار ودان نے کہا کہ پاکستان اپنے تمام بارڈرز کی سیکیورٹی مضبوط کرے ¾اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے تاہم سارا الزام افغان پشتونوں کو نہ دیا جائے۔ مولانا امیر زمان نے کہا کہ پاک افغان بارڈر کے قرب و جوار میں بسنے والے لوگوں نے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا ہے‘ ان لوگوں کو دہشتگرد نہ کہا جائے۔ عائشہ گلالئی نے کہا کہ افغانستان سے دہشتگرد حملہ آور ہوتے ہیں ہمارے لوگ شہید ہوتے ہیں اس قرارداد کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں بارڈر مینجمنٹ وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اگر افغانستان یہ بات نہیں مانتا تو ہمیں اپنی طرف سے بارڈر سیل کر دینا چاہیے۔ انجینئر عثمان خان ترکئی نے کہا کہ پاک افغان بارڈر کی سیکیورٹی کے حوالے سے قرارداد کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں تھا ہم نے اپنا ملک بچانا ہے۔ افغان شہری پاکستان آکر ہمارا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ لے کر دنیا بھر میں ہماری بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ مولانا امیر زمان نے کہا کہ میں نے ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ نہیں کہا۔ شیر اکبر خان نے کہا کہ ملک کے ہر شہری کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ قرارداد کی مخالفت کرنا زیادتی کی بات ہے ہم قرارداد کی حمایت کرتے ہیں۔ مراد سعید نے کہا کہ ہم پشتونوں کو دہشت گرد نہیں کہہ رہے ‘ میں خود پختون ہوںہم پختونوں اور پاکستانیوں کے لئے سیکیورٹی کے طلب گار ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری مریم اورنگزیب نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ میں نے وزارت داخلہ کے اقدامات کا ذکر کیا ہے۔ حکومت بارڈر مینجمنٹ کے حوالے سے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ہم نے راہداری پاسز کے حوالے سے نظام کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے ہیں۔ ایک سافٹ ویئر ڈویلپ کرکے پاکستان آنے والوں کو مانیٹر کیا جائے گا۔ اس طرح ”نارا“ کو فعال بنانے کے لئے نادرا کے ڈیٹا بیس کے ساتھ لنک کیا گیا وزارت داخلہ نے طورخم اور چمن بارڈر پر آنے جانے والے لوگوں کی نقل و حرکت پر ایف آئی اے کے رولز عائد کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے حکم پر دوہرے پاسپورٹ کے حامل لوگوں کے پاسپورٹ بلاک کردیئے ہیں۔ اس طرح غیر پاکستانیوں کے شناختی کارڈز بھی بلاک کردیئے گئے اور اس میں ملوث نادرا ملازمین کو برطرف کرکے قانونی اقدامات اٹھائے گئے۔ حکومت سو نہیں رہی اس الزام کی بناءپر ہم نے قرارداد کی مخالفت کی ہے۔ حکومت نے مکمل جاگتے ہوئے بارڈر مینجمنٹ کے حوالے سے اقدامات اٹھائے ہیں۔ سمگلنگ اور تجارت کے حوالے سے نکات کا جواب متعلقہ وزارتیں ہی دے سکتی ہیں۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ پرائیویٹ ممبر ڈے کے ایجنڈے کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ بارڈر سیکیورٹی کے حوالے سے قرارداد کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں تھا۔ پاکستان کی سرحد کا تحفظ یقینی بنایا جائے سمگلنگ سے ملک کا اربوں ڈالر نقصان ہو رہا ہے۔ غوث بخش مہر نے کہا کہ قرارداد کی مخالفت مناسب طرز عمل نہیں ہے۔ نیشنل سیکیورٹی صوبوں اور مرکز سب کی ذمہ داری ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ بھارت نے اپنے بارڈر پر طویل باڑ لگا رکھی ہے۔ سرحدوں کی حفاظت صوبوں کی ذمہ داری نہیں مرکز کی ہے۔ یہ بہت اچھی قرارداد ہے اس کو منظور ہونا چاہیے۔ پارلیمانی سیکرٹری مریم اورنگزیب نے کہا کہ انہوں نے بارڈر مینجمنٹ کو صوبوں یک ذمہ داری نہیں کہا بلکہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ سیکیورٹی کے امور کی ذمہ داری متعلقہ صوبے کی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ قرارداد کی مخالفت نہیں کرتیں۔ اس معاملے کو کوئی اور رنگ نہ دیا جائے۔ وفاقی حکومت ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے۔قومی اسمبیل نے قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی۔ اجلاس کے دور ان قومی اسمبلی نے یونیورسٹیوں میں طالبات کو یونیورسٹی احاطہ کے اندر ہاسٹلز میں رہائش فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے قرارداد پیش کی کہ اس ایوان کی رائے ہے کہ حکومت ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے پر طالبات کو یونیورسٹیوں کے احاطہ کے اندر ہاسٹلوں میں رہائش کی فراہمی کے لئے اقدامات کرے۔ پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا افضل خان نے قرارداد کی مخالفت نہیں کی۔ قومی اسمبلی نے قرارداد کی منظوری دیدی۔