پاکستان کی طرف سے پہلے بھی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ ملا فضل اللہ اور کئی دیگر دہشت گرد کمانڈر اپنے جنگجوو¿ں کے ساتھ سرحد پار افغانستان میں روپوش ہیں جہاں سے وہ پاکستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔گزشتہ سال دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد بھی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے کابل کا دورہ کیا تھا اور افغان حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں ہی کی گئی۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کابل میں ہونے والے حملوں کے بعد افغان حکومت کی طرف سے پاکستان پر یہ کہہ کر تنقید کی گئی تھی کہ دہشت دوں کی پناہ گاہیں اب یہاں موجود ہیں جہاں سے افغان سرزمین پر حملوں کی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔رواں سال مئی میں پاکستان اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون پر اتفاق کیا تھا جس کے تحت پاکستانی فوج کے انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ اور افغانستان کے خفیہ ادارے ’نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی‘ کے درمیان مفاہمت کی ایک یاداشت پر دستخط کیے گئے۔اس یاداشت پر دستخط کا مقصد یہ تھا کہ دونوں ممالک کے انٹیلی جنس ادارے دہشت گردوں سے متعلق خفیہ معلومات کے تبادلے کے علاوہ اپنی اپنی سرزمین پر عسکریت پسندوں کے خلاف مربوط کارروائیوں کے لیے بھی تعاون کریں گے۔ لیکن عملی طور پر اس بارے میں کوئی زیادہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔