لاہور (نیوزز ڈیسک)میرے شہید بیٹے آج تم کتنے بڑے اور میں کتنا چھوٹا رہ گیاہوں۔یہ الفاظ ہیں شہید کیپٹن اسفند یار بخاری کو تعلیم و تربیت دینے والے معززو محترم استاد محمد ظہیر قندیل کے جو کیڈٹ کالج حسن ابدال میں صدر شعبہ اردو ہیں۔مقامی اخبار خبریں کے مطابق ظہیر قندیل نے کہا کہ مجھے اپنے ہونہار شاگرد پر فخر ہے۔انہوں نے کیپٹن اسفندیار بخاری کے حوالے سے بتایا کہ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں یکم مئی 2001کو ہم دونوں ایک ہی دن داخل ہوئے تھے۔میں بحیثیت مدرس اوروہ بحیثیت کیڈٹ۔میرے ہی ونگ میں تھا جو شریر بھی تھا اور ذہین بھی۔اس کی طبیعت میں بے چینی تھی،آگے سے آگے بڑھنے کی لگن تھی۔تب وہ بہت چھوٹا تھا اور میں بہت بڑا۔آج شہادت کے بعد اسفند یار بخاری بہت بڑا ہو گیا اور میں کتنا چھوٹا رہ گیا ہوں۔انہوں نے مزید بتایا کہ اسفند یار بہترین مضمون نگار اور مقرر تھا۔ وہ جماعت ہفتم میں تھا جب پاس اپنا مضمون ”بوڑھی ویگن “ لکھ کر میرے پاس لایا۔اس کے لکھے ہوئے مضامین ہر سال کالج میگزین ”ابدالین “ کی زینت بنتے رہے جنہیں تمام ابدالین ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔وہ چیمپئن جناح ونگ کا ونگ کمانڈر بنا اور مجھے یقین تھا کہ وہ کیڈٹ کیپٹن کا اعزاز بھی حاصل کرے گا مگر اس کا ہدف کچھ اورتھا۔ظہیر قندیل نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسفند یار کالج سے باعزت رخصت ہوا اور بری فوج کے تربیتی ادارے میں اپنی عزت اور شان میں اضافہ کرتے ہوئے پاکستان ملٹری اکیڈمی سے ”شمشیر اعزاز“ کا اعزاز پایا۔انہوں نے فخریہ انداز میں کہا کہ عزت اسے ملی اور سر ہمارا بلند ہوا مگر اس سے بھی بڑھ کر اس کی کھوج اور جستجو ابھی باقی تھی۔انہوں نے کہا کہ آج مجھے محسوس ہوا کہ شہادت کیپٹن اسفند یار بخاری کو ملی نہیں بلکہ خود تلاش کر کے اس نے اسے گلے لگایا۔آج مجھے اس کی بے چینی کا علم ہو گیا کہ اسے جستجو کیا تھی؟اس کی منزل کیا تھی اور اس کا مقام سکون کیا تھا؟اسے کس چیز کی بے چینی تھی؟سب سوالوں کا جواب آج شہادت کی صورت مل گیا