آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد اپنایا تھا ۔صرف دہشتگردوں کا خاتمے سے یہ مسئلہ ختم نہیں ہوگا دہشتگردی نے انتہا پسندی کی گود سے جنم لیا ہے ہمیں نیشنل ایکشن پلان میں جو باقی نکات ہیں ان پر بھی عملدرآمد کرنا ہوگا ۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میںمقامی حکومتوں کا کردار ناگزیر ہے لیکن بد قسمتی سے سپریم کورٹ کے بار بار احکامات کے بعد حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے لئے تیار ہوئی ہیں۔ آج جہاں فوجیوں کو شہید کیا گیا وہاں نہتے نمازیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا یہ سفاکانہ عمل ہے اگر مذہب کے نام پر سب ہو رہا ہے تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ کس مذہب کے نام پر ہو رہا ہے ۔ یہ دہشتگرد کون ہیں ،یہ ہمارے درمیان میں ہی رہتے ہیں۔ اگر عوام اپنے اطراف پر نظر نہیں رکھیں گے تو یہ جنگ جیتنی مشکل ہو جائے گی ۔انہوںنے کہا کہ کراچی میں آج پھر ہمارے رکن اسمبلی سیف اللہ خالد پر قاتلانہ حملہ کیا گیا لیکن وہ اللہ کے فضل سے محفوظ رہے اسی علاقے میں رضا حیدر اور منظر امام کوپہلے ہی شہید کیا جا چکا ہے اگر آج بھی دہشتگرد کامیاب ہو جاتے تو دہشتگردی میں اضافہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگرد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں ، انتشار اور انارکی پیدا کر کے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ دہشتگرداپنی مرضی سے نہ صرف ٹارگٹ کا انتخاب کرتے ہیں بلکہ جائے واردا ت کا بھی انتخاب کرتے ہیں انہیں کوئی پوچھنا والا نہیں چاہے ،کراچی ہو پشاور اس حوالے سے عوام میں بے یقینی کی صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ سے رجوع کرنے والے تین میں سے دو درخواست گزار وکلاءایم کیو ایم کے رکن چکے ہیں اور وہ ناراض ہو کر پانچ سال پہلے ایم کیو ایم کو چھوڑ گئے تھے ۔انہوں نے کہا کہ کہیں سے بھی آنے والی پابندی کو آئین و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے ۔ اگر کسی اور جماعت کے 150سے زائد کارکن لا پتہ ہوں تو وہ کیا کریں گے ۔ ہم سیاسی طور پر آواز بلند کر رہے ہیں کہ اگر وہ کسی جرم میں ملوث ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ جب جرائم کے خاتمے کے لئے کوئی آپریشن ہوتا ہے تو وہاں سویلین نگرانی ضرور ی ہوتی ہے اگر یہ بھی نہ ہو تو جوڈیشل کمیشن تو ہونا چاہیے ۔ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو میںفاروق ستار نے کہا کہ کراچی میں آپریشن سب کے خلاف ہونا چاہیے ،ایم کیو ایم میں بھی جرائم پیشہ عناصر ہو سکتے ہیں ،انہیں قانون سے مبرا قرارنہیں دیا جا سکتالیکن اگر یہ لوگ کسی جرم میں ملوث ہیں تو ان کے خلاف مقدمات درج کریں انکی نشاندہی کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ ملک میں شفاف انتخابات ہونے چاہیے اگر شفاف انتخابات نہ ہوئے تو ملک کو خطرہ ہے ۔ اور میں بڑی ناخوشی سے یہ بات کہتا ہوں کہ جمہوری حکومتوں نے ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے ۔اب جو بلدیاتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں اس میں بلدیاتی ناظمین اورنمائندوں کو کوئی اختیارات نہیں ہوں گے بلکہ سب اختیارات حکومت کے پاس ہوں گے حالانکہ مقامی حکومتوں کا بااختیار نظام قائم کیا جانا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں ہیں اور یہی ملک کی بڑی جماعتیں بھی ہیں تو ملک کو بچانے کےلئے ان بڑی جماعتوں کو اپنا کردار اداءکرنا ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قائد الطاف حسین کے بیانات کے حوالے سے انہوں نے ٹی وی پر قوم سے معافی مانگی اور الفاظ واپس لئے تھے ۔اب الطاف حسین کے بیان حلفی بارے رابطہ کمیٹی سے مشور ہ کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا کہ عدالت میں حلف نامہ داخل کروانا ہے یا نہیں ۔