کراچی(نیوزڈیسک)وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے کسان پیکیج کا اعلان دراصل پی ٹی آئی کی جانب سے کسان کنونشن کا ردعمل ہے،ملک بھر کے کسانوں کے جو اصل مسائل ہیں ان کو کبھی نہ ماضی میں بتایا گیا اور نہ ہی اب موجودہ حکومت میں سامنے لایا گیا ہے،این اے 122میں اصل لڑائی پی ٹی آئی اورمسلم لیگ ن کے درمیان ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی تو کسی گنتی میں ہی نہیں۔ہمارے ووٹر ابھی اس قابل نہیں کہ وہ پالیسی ایشوز پر ووٹ دیں ،فنڈزملنے کے باوجودخیبرپختونخوا میں ڈیم نہ بننے سے پی ٹی آئی کو نقصان ہوسکتا ہے ۔ان خیالات کا اظہار ملک کے معروف تجزیہ کاروں اور صحافیوں شہزاد چوہدری ، امتیاز عالم ، بابر ستار ، مظہر عباس اور سلیم صافی نے کسان پیکج کے اعلان اور اس کے ضمنی اور بلدیاتی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے حوالے سے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔سینئر تجزیہ کار شہزاد چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت اس وقت دو تین محاذوں پر ہے اور اس نے اپنے ڈھائی سالہ دور میں کوئی ایگریکلچر پالیسی بنائی ہی نہیں ۔ غریب کسان کو جن مسائل کا سامنا ہے یہ کمزوریاں ہیں اس نظام کی جو بغیر کسی پالیسی کے چل رہا ہوتا ہے ، انہوں نے 341ارب کے پیکج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب بجٹ پیش ہوتا ہے تو اسمبلی سے پاس بھی ہوتا ہے اس لے یہ 371 کا کوئی بجٹ نہ تھا، یہ درمیان میں کہاں سے آگئے انہوں نے اسلام آباد ، لاہور میں میٹرو بس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کا بجٹ کہاں سے آیا کیونکہ قومی اسمبلی نے ایسا کوئی بجٹ مختص نہیں کیا تھا ۔ پوچھے گئے سوال کے جواب میں شہزاد چوہدری کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات تو پہلے ہی پنجاب کی حد تک مسلم لیگ ن کے حق میں تھے یہ تو ری ایکشن ہے ،پی ٹی آئی کے اس کنونشن کا جو عمران خان نے کیا جس کے جواب میں ن لیگ کو ئی اقدام کرنا پڑا ۔ تجزیہ کار بابر ستار نے ری ایکشن ہے یہ پی ٹی آئی کنونشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا اکثر میاں صاحب کے کام تحریک انصاف کے بیانات کا ری ایکشن ہی ہوتے ہیں ، انہوں نے احتساب کی بات کی میاں صاحب نے احتساب کمیشن بنانے شروع کردیئے ، بابر ستار نے کہا بالکل یہ بلدیاتی الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے کیونکہ اس کا ثبوت وقت کا انتخاب ہے کیونکہ ایسی چیزیں لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور اگر اس میں کسان کا فائدہ ہورہا ہے تو یہ بڑی اچھی بات ہے بھلے وہ عمران خان کے پریشر میں آکر کیا جارہا ہو