اسلام آباد (این این آئی)ماہرین نے کہاہے کہ پاکستان کو مبینہ دھمکی آمیزخط کے معاملے پر عمران خان کے بیانیے سے پاکستان کے امریکہ سمیت کئی ممالک سے سفارتی تعلقات متاثر ہونگے ،سفارتی کیبل سے زیادہ سیاسی بیانات سے نقصان پہنچا،کیبل میں فوری کوئی حقیقت یا خطرے اور پریشانی کی بات ہوتی تو سپریم کورٹ اس کو ضرور سنجیدہ لیتی،چین کے ساتھ بہتر تعلقات
اور امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنے کی کوشش کا خمیازہ تو پاکستان پہلے ہی بھگت رہا ہے ۔ بی بی سی کے مطابق قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات سے منسلک ڈاکٹر قندیل عباس نے کہاکہ پہلے پاکستانی وزیراعظم سے آج کے وزیر اعظم تک امریکہ کا پاکستان کی سیاست میں ملوث ہونا ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے جس سفارتی کیبل کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ بظاہر ایک معمول کی کیبل ہے جو پاکستان میں موجود غیر ملکی سفارتکار اپنے ممالک کو بھیجتے رہتے ہیں اور ہمارے سفارتکاروں کے ذریعے دوسرے ممالک سے پاکستان بھی آتی ہیں،ماضی میں اس سے زیادہ خطرناک کیبلز اور مراسلے آتے رہے ہیں لیکن اس بار اس خط کا وقت اس کو اہم بنا رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ اب امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے میں وقت لگے گا،میرا خیال ہے کہ اس کیبل میں فوری کوئی حقیقت یا خطرے اور پریشانی کی بات ہوتی تو سپریم کورٹ اس کو ضرور سنجیدہ لیتی۔ انہوںنے کہاکہ یہ سفارتی خط اتنا اچھالا نہ جاتا مگر اس سے قبل بعض امریکی شخصیات کی پاکستان کی اہم شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے کہ شاید امریکہ پہلے سے ہی اس ملوث تھا، میں سمجھتا ہوں کہ جب تک اس کیبل کا متن سامنے نہیں آتا اس پر رائے دینا ہی کافی مشکل ہے۔انہوںنے کہاکہ مستقبل میں ایک طویل عرصے تک اس خط اور عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کا اثر پاکستان پر ہو گا۔انہوںنے کہاکہ ہماری بہت سے مذہبی اور سیاسی قوتیں ہیں جو امریکہ مخالف ہیں، اور گذشتہ چند ہفتوں میں ان گروپس اور افراد نے بھی عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کی حمایت کی ہے جو عام طور پر اْن سے سخت اختلاف رکھتے ہیں اور ان کے اتحاد کا حصہ نہیں بنتے، اگر عمران خان کا یہ بیانیہ ان کی انتخابی مہم میں بھی جاری رہا تو پاکستان میں ایک ایسا اتحاد بن سکتا ہے جو امریکہ مخالف بیانیے کی حمایت کرتا ہو۔انہوںنے کہاکہ اس اتحاد کا منفی اثر اس لیے بھی ہو گا کہ اس وقت تقریباً تمام ہی بین الاقوامی سٹرکچرز یا ادارے امریکہ یا مغربی قوتوں کے زیر انتظام یا ان کی نگرانی میں ہیں جیسا کہ آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف حتی کہ اقوام متحدہ بھی تو کسی بھی مزاحمت یا تصادم کی صورت میں پاکستان کے لیے بقا کی جنگ قدرے مشکل ہو گی۔نئی حکومت ان حالات کا مقابلہ کیسے کرے گی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر قندیل عباس آنے والے دنوں میں امریکہ پاکستان تعلقات میں استحکام نئی حکومت کے ایک بڑا چیلنج قرار دیتے ہیں، اْن کا خیال ہے کہ کسی بھی طرح حالات میں بہتری کو عمران خان کے بیانیے سے جوڑا جائے گا کہ چونکہ امریکہ حکومت کی تبدیلی میں ملوث تھا سو اب اپنی پسند کی حکومت کے لیے حالات سازگار کیے جا رہے ہیں۔ڈاکٹر قندیل کے مطابق مستقبل کی حکومت کیلئے یہ بڑا چیلنج ہو گا کہ ایک متوازن خارجہ پالیسی لائے۔ ابھی ہمیں انڈین سینٹرک پالیسی سے نکلنا ہو گا
اور حالیہ قومی سلامتی پالیسی کے مطابق جیو سٹریٹجک کی بجائے جیو اکنامک پالیسی پر عمل کریں گے تو بہتر ہو گا، ہمیں توازن لانا ہو گا امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات میں اور اس کے ساتھ ساتھ چین اور روس کے ساتھ تعلق میں بھی۔بین الاقوامی اْمور کی ماہر ہما بقائی نے کہاکہ چین کے ساتھ بہتر تعلقات اور امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنے کی کوشش کا خمیازہ تو پاکستان پہلے ہی بھگت رہا ہے
اور اب اس غیرجانبداری پر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے،غیرجانبدار رہنے کا خمیازہ بھگتنے کی بات ہے تو چین کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ہمیں قیمت تو پہلے ہی ادا کرنی پڑ رہی ہے، مثال کے طور پر ہم فیٹف میں گرے لسٹ میں ہیں باوجود اس کے کہ ہم سوائے ایک کے ان کی زیادہ تر شرائط پر عمل کر چکے ہیں۔انہونے کہاکہ پاکستان یہ بھی سمجھتا ہے کہ امریکہ اسے عوامی سطح پر شرمندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
انہوںنے کہاکہ پاکستان میں یہ سوچ بھی موجود ہے ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں بھی امریکہ اور مغرب کا ساتھ دینے کا اندرونی اور بیرونی طور پر، فائدے سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ہما بقائی کے مطابق پاکستان کی حال ہی میں جاری ہونے والے قومی سلامتی پالیسی میں واضح طور پر کہا گیا کہ پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں بنے گااور یہ کہ پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کی بنیاد اب معیشت ہے۔
بی بی سی کے مطابق معیشت کا حال دیکھیں تو پاکستان کا سب سے زیادہ انحصار امریکہ اور مغربی ممالک پر ہی ہے،2019 میں پاکستان کی کل برآمدات 26.6 ارب ڈالر تھیں، جس میں سے 14.4 مارکیٹ شیئر کے ساتھ امریکہ پہلے نمبر پر تھا، چین کا حصہ تقریباً آٹھ فیصد تھا جبکہ برطانیہ اور جرمنی چھ فیصد شیئر کے ساتھ تیسرے اور چوتھے نمبر پر تھے لیکن روس کا شیئر صرف ایک فیصد رہا اسی طرح قرض کا حجم 85 ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکج لینے کیلئے مغربی طاقتوں کے
دخل کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی فنڈنگ پر نظر رکھنے والے ادارے میں مغربی طاقتوں کی مخالفت پاکستان کے لیے مشکل پیدا کر سکتی ہے،اگرچہ آج پاکستان کے دفاعی سازوسامان کا تقریباً 60 فیصد حصہ تو چین سے آ رہا ہے تاہم باقی 40 فیصد مغرب سے خریدا جاتا ہے اور اس 40 فیصد میں انتہائی اہم اور دفاعی نوعیت کا جنگی سازوسامان شامل ہے مثلاً پاکستان کی فضائیہ کے ایف سولہ طیارے امریکی اور میراج فرانس کے ہیں
۔پاکستانی بحریہ کی آگسٹا آبدوز فرانسیسی ساختہ ہے۔ آرمی ایوی ایشن کے ایم آئی 17 اور 35 روس کے ہیں مگر کوبرا اور بیل امریکی اور پوما اور ایکویرل فرانسیسی ہیں۔ ٹینکوں میں یوکرین سے ٹی اے ٹی یوڈی ٹینک مگر پاکستان کی اہم ترین آرٹلری گنز کا بڑا حصہ امریکی ساختہ ہے۔ اسی طرح فوج کے مواصلاتی نطام کا بڑا حصہ چین اور امریکہ سے آتا ہے،اب تشویشناک امر یہ ہے کہ اس تمام ساز و سامان میں پاکستان کا ان ممالک کے ساتھ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کا معاہدہ نہیں ہے، اس لیے ان میں ایک
معمولی پرزے کی خرابی کی صورت میں بھی پاکستان کو ان ممالک سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔عسکری ذرائع کے مطابق جب فرانس کے سفیر کی بے دخلی کا معاملہ اٹھا تو فرانس نے بعض فوجی سازوسامان کے پرزے فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خط سکینڈل کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے تجزیہ نگار مشرف زیدی نے کہاکہ پاکستان کی سفارتکاری کو سابق حکومت کے اس خط سکینڈل کا بوجھ نہ صرف پاک، امریکہ تعلقات بلکہ دیگر ممالک کے
ساتھ تعلقات میں بھی اٹھانا پڑیگا۔انہوںنے کہاکہ پاک امریکہ تعلقات اس سفارتی کیبل سے اتنے متاثر نہیں ہوئے جتنے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس سفارتی خط کے مبینہ متن کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے ہوئے۔انھوں نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ یہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب امریکہ دو وجوہات، جن میں پہلی افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد لوگوں کے انخلا میں پاکستان کا اہم اور کلیدی کردار اور دوسری دوحہ میں طالبان کے ساتھ امریکہ کے امن مذاکرات میں سہولت کاری، کی بنا پر
پاکستان کا شکر گزار تھا اور ان دونوں کے جو فوائد پاکستان کو حاصل ہونا تھے، ان بیانات کے باعث انھیں روکا گیا جو وزیر اعظم نے تسلسل کے ساتھ دئیے تھے۔مشرف زیدی نے کہاکہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اسامہ بن لادن کو شہید قرار دینا، طالبان کے افغانستان پر قبضے کو غلامی کی زنجیریں توڑنے کا کہنا، ان تمام بیانات کو امریکہ میں بہت توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔انہوںنے کہاکہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیانات نے مسلسل امریکہ میں پاکستان مخالف لابی کو مواد فراہم کیا ہے۔
مشرف زیدی نے کہا کہ اس کے جواب میں امریکہ کا ردعمل بھی بڑا خوفناک تھا کیونکہ صدر بائیڈن نے صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد دنیا کے چھوٹے ممالک کے سربراہان سے ٹیلی فون پر رابطہ کرنے میں کوئی تکلف نہیں کیا مگر جب پاکستان کی بات آئی تو انھوں نے سابق وزیر اعظم کو ایک فون کال بھی نہیں کی۔انہوںنے کہاکہ پاک امریکہ تعلقات میں غلطیاں دونوں جانب سے ہوئی ہیں۔
مشرف زیدی کے مطابق کیونکہ پاکستان کو اقتصادی طور پر امریکہ کی زیادہ ضرورت ہے اس لیے پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے کسی بھی سیاسی رہنما کو غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دینے چاہئیں ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ امریکی عوام میں پاکستان کا نام خراب کرنے میں جہاں ایک طرف انڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے تو ایسے میں ہماری جانب سے بار بار انھیں ایسا مواد پیش کرنا بہت
نقصان دہ ہے۔انہوںنے کہاکہ شاید امریکہ کا پاکستان سے بہتر کوئی اور دوست نہیں ہے کیونکہ جتنی کم معاشی امداد کے عوض پاکستان نے جو جو کام کیے ہیں وہ دنیا اور امریکہ کے لیے بہت اہم ہیں۔عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد تعلقات میں بہتری پر بات کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ میرے خیال میں بہتری آنی چاہیے لیکن آنے والی حکومت کے لیے عمران خان ایک مشکل صورتحال چھوڑ کر گئے ہیں
کیونکہ جیسے ہی تعلقات میں بہتری آئے گی تو ان کی جماعت اور حمایتی اپنے سیاسی بیانیے کو تقویت دینے کی کوشش کریں گے۔ جس سے انھیں تو سیاسی فائدہ مل سکتا ہے لیکن ملک کو نقصان ہو گا۔سفارتی خط سکینڈل کا دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی اثر ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں مشرف زیدی نے کہا کہ بالکل ہو گا کیونکہ اب کوئی بھی غیر ملکی سفیر پاکستانی سفیر سے بات کرنے میں محتاط ہو گا کیونکہ انھیں خدشہ ہو گا کہ ان کی کہی کوئی بات یا بیان کو توڑ مروڑ کر یا ایسے انداز میں تو نہیں پیش کیا جائے گا کہ جیسے وہ پاکستان کو دھمکی دے رہے ہوں۔انہوںنے کہاکہ سفارت کاروں کو جس بے تکلفی سے آپس میں بات کرنے چاہیے اس پر اس معاملے کے بعد بظاہر ایک قدغن لگ گئی ہے۔