اسلام آباد،عبدالحکیم ، کبیروالا (مانیٹرنگ ڈیسک، این این آئی )ن لیگ میں بھی سینٹ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر اختلافات سامنے آگئے ،نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق ن لیگ میں دوگروپ آمنے سامنے پر لیگی قیادت ٹکٹوں کا فیصلہ نہ کر سکی ،ذرائع کاکہنا ہے کہ شہبازشریف گروپ نے مشاہد اللہ کوٹکٹ دینے کی مخالفت کردی ،گروپ کا موقف ہے کہ
مشاہداللہ بیمارہیں،کسی متحرک رہنماکوسینٹ ٹکٹ دیاجائے،قیادت کی جانب سے مشاہداللہ کے بجائے عرفان صدیقی کومیدان میں اتارے جانے کا امکان ہے۔ذرائع کاکہنا ہے کہ پارٹی کے دوسرے گروپ نے اعظم نذیرتارڑکو ٹکٹ دینے کی مخالفت کردی، دوسرے گروپ کااعتراض ہے کہ اعظم نذیر تارڑ کی پارٹی کیلئے کیا خدمات ہیں؟گروپ نے قیادت کو سفارش کی ہے کہ اعظم نذیرتارڑکے بجائے زاہد حامد کو ٹکٹ دیا جائے۔دوسر ی جانب مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر علامہ پروفیسر حافظ ساجد میر نے سینیٹ کا ٹکٹ دینے پر میں میاں محمد نواز شریف شریف، میاں محمد شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کی قیادت کا خاص طور پر شکر گزار ہوں کہ مجھے پہلی دوسری مرتبہ نہیں بلکہ پانچویں مرتبہ سینیٹ میں جانے کا موقع دیا جا رہا ہے اور ایوان بالا میں پنجاب کی نمائندگی کرنے کا اس سے پہلے جو عرصہ میں نے گزرا ہے میں نے کوشش کی ہے کہ پاکستان اور عوام کے جو مسائل ہیں ان کو ارباب اقتدار کے سامنے لایا
جائے اور اگر ا سکا کوئی حل ممکن ہے تو ان کو بھی تجویز کیا جائے جو بین الااقوامی مسائل ہیں خاص طور پر کشمیر کا مسئلہ ہے اس پر بھی اپنا اظہار خیال کرنے اور اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ان کا کہنا تھا سینٹ میں دینی اسلامی باتیں جو آتی رہی ہیں اور وہاں لانی چاہیے تھیں
ان میں بھی میں نے اپنا حصہ ڈالا ہے مجھے امید ہے کہ آئندہ ٹرم میں بھی ان شاء اللہ اسی طرح میری کوششیں جاری رہیں گی ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ا?پ فکر نہ کریں مسلم لیگ کی قیادت کو مجھ پر اور مجھے نہ صرف قیادت پر بلکہ پوری مسلم لیگ پر اور تمام ممبران
پر پورا یقین اور بھروسہ ہے نئے مدارس بورڈ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پانچ وفاق پہلے سے موجود تھے جو اپنا کام کر رہے تھے ان کے ہوتے ہوئے میں نہیں سمجھتا کسی اور وفاق کی ضرورت تھی مدارس کا مفاد اتحاد اور یکسو ہو کر انہی مدارس کیساتھ چلنے میں ہے جو پہلے
قائم ہیں اور اپنا کام کررہے ہیں مدارس کو علیحدہ کرنے کیلئے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ جیسا سوچ رہی ہے ویسا انشاء اللہ نہیں ہو گا حکومت کا ابتداء دن سے ہی ان وفاقوں کی طرف فروغ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان وفاقوں کو بلا مطالبہ درپردہ مقاصد کیلئے بنایا گیا ہے اب حکو مت کے
ترجمان ڈھنڈورچی بنے ہوئے ہیں وہ کہ رہے ہیں حکومت کا کارنامہ ہے کہ اس نے علماء کا عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا لیکن کو ئی یہ بتانے کو تیا نہیں ہے کہ یہ مطالبہ کس نے کیا تھا کب کیا تھا ؟ کسی چیدہ مذہبی ر ہنما کی بجائے کسی عام ا?دمی کی طرف سے بھی چالیس سال میں کوئی مطالبہ کبھی نہیں آیا جس طرز حکومت اور اسٹبشلمینٹ توڑ پھوڑ کرتی رہی ہے سیاسی جماعتو ں اور دینی جماعتوں میں یہ اس قسم کا ایک اقدام ہے یہ وفاق برائے نفاق ہیں یہ وفاق برائے دینی تعلیم نہیں