ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

وزیراعظم کے انٹرویو سے پہلے اور بعد میں کیا ہوا؟ منصور علی خان کا دلچسپ انکشاف

datetime 1  دسمبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان اپنے سب سے بڑے ناقدسینئر صحافی منصورعلی خان کوانٹرویو دینے کے لیے کیوں راضی ہوئے،انٹرویو کے پہلے اور بعدمیں کیا ہوا؟منصورعلی خان نیسب کچھ بتا دیا۔اپنے یوٹیوب چینل پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے

کہا کہ میں نے ذہن میں سوچ رکھا تھا کہ اگر مجھ سے سوال مانگے گئے تو میں نے انٹرویو نہیں کروں گا۔ وزیراعظم کو”میراکپتان”کہنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا، اگر وہ منع کردیتے تو آئندہ کبھی بھی نہ کہتا۔ ہم نے وزیراعظم عمران خان سے انٹرویو کے لیے شبلی فراز اور شہباز گل کو درخواست کی تھی تاہم کچھ دن پہلے میری وزیراعظم سے ملاقات بھی ہوئی لیکن مجھے ان سے درخواست کرنا یاد نہیں رہا۔ انہوں نے بتایا کہ جمعرات کو میں فیصل آباد پروگرام کی شوٹنگ کر رہا تھا کہ ڈاکٹر شہبازگل کی کال آئی اور انہوں نے بتایا کہ کل آپ نے وزیراعظم کا انٹرویو کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ذہنی طور پر تیار نہیں تھا کیونکہ میرے پروڈیوسر فیصل را والد کی وفات کے باعث ہمارے ساتھ نہیں تھے تو میں نے اسسٹنٹ پروڈیوسر انعم کو بتایا تو انہوں نے کہا کوئی بات نہیں ہم تیاری کرلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جب سکیورٹی کلیئرنس کے بعد وزیراعظم آفس پہنچے تو اپنا سیٹ اپ لگایا اس کے بعد دوبارہ ہمیں کہا گیا کہ کمرے سے

باہر چلے جائیں، سکیورٹی چیکنگ کے بعد ہمیں دوبارہ کمرے میں جانے کی اجازت مل گئی۔ انہوں نے بتایا کہ پرائم منسٹرسٹاف کی جانب سے کہا گیا کہ پہلے آپ کی 15منٹ کی وزیراعظم سے ملاقات ہوگی اور پھر انٹرویو ہوگا۔ اس کے بعد میری وزیراعظم سے بڑے اچھے ماحول میں

ملاقات ہوئی، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا پھر اس کے بعد انٹرویو ہوا۔ وزیراعظم عمران خان نے آف کیمرہ بھی مجھے بتایا کہ آپ میرے سب سے بڑے ناقد ہیں اسی لیے میں آپ کو انٹرویو دے رہا ہوں کیونکہ آپ تعمیراتی تنقیدکرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چالیس منٹ کا وقت دیا گیا تھا

لیکن 62منٹ کا انٹرویو کیا گیا۔ انٹرویو ختم ہوتے ہی وزیراعظم چلے گئے اورمجھے پی ایم ہائوس سٹاف نے بتایا کہ وزیراعظم نے نماز پڑھنی تھی اس لیے چلے گئے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم اس پروگرام کو سوموار کو چلانا چاہتے تھے لیکن ہمیں وزیراعظم ہائوس کی جانب سے

ہدایت کی گئی کہ اس کو جتنی جلدی ہوسکتا ہے چلائیں اس لیے پھر ہم نے اگلے دن ہی پروگرام کو چلا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے وزیراعظم کے پروٹوکول کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے ساتھ انتہائی مودبانہ لہجے میں گفتگو کی کیونکہ وہ میرے سامنے پی ٹی آئی کے چیئرمین نہیں وزیراعظم

کے طور پر انٹرویو دے رہے تھے۔ اس لیے میں نے ان سے آف کیمرہ اور آن ایئر بھی پوچھا کہ اگر آپ کو ”میرا کپتان”کہنے پر اعتراض ہے تو میں نہ کہا کروں تو انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ، اگر وزیراعظم مجھے منع کر دیتے تو میں ان کو آئندہ کے بعد ایسے نہ بلاتا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…