اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’ کرسی کسی کی وفادار نہیں ہوتی جناب ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔میں نے کل عمران خان کو بھی ”میرے علاوہ کوئی چوائس نہیں“ اور ”نظریے پر کھڑے رہے تو کوئی ہماری حکومت نہیں گرا سکتا“کا دعویٰ کرتے دیکھا‘ میرے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے ایک سپورٹر بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور ان سے کہا‘
آپ لوگ توبہ کریں ‘کائنات میں اللہ کے علاوہ ہر شخص کا آپشن اور چوائس موجود ہوتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نبیوں کے بعد بھی نئے نبیوں کی چوائس اور آپشن دیتا رہا‘ ہم اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں‘ میں نے اس کے بعد اس سپورٹر سے کہا ”میں اس دعوے سے پہلے سمجھتا تھا عمران خان پانچ سال بھی پورے کریں گے اور یہ اگلی ایک دو ٹرمز کے لیے بھی الیکٹ ہو جائیں گے لیکن میں آج محسوس کر رہا ہوں یہ اب زیادہ دن نہیں ٹک سکیں گے۔عمران خان نے خود کو ناگزیر قرار دے کر اپنے اقتدار کی قبر کھود لی اور یہ کسی بھی وقت اس میں جا گریں گے“ پی ٹی آئی کے سپورٹر نے میری بات سے اتفاق نہیں کیا لیکن میں نے ان سے عرض کیا ”حکومتوں کو ان کی پرفارمنس‘ ان کی گورننس بچاتی اور چلاتی ہے لیکن آپ نے ”میرے علاوہ کوئی چوائس نہیں“ کو اپنی طاقت بنا لیا۔اس سے بڑی بے وقوفی کیا ہو سکتی ہے؟ ہماری اپنی 72 سالہ تاریخ عمران خان سے طاقت ور اور ناگزیر لوگوں سے بھری پڑی ہے لیکن آج لوگ ان کی قبروں تک سے واقف نہیں‘ آپ غلام محمد سے شروع کر لیں‘ گورنر جنرل غلام محمد بھی خود کو ناگزیر سمجھتے تھے‘ لوگ آج ان کی جائے تدفین تک کو نہیں جانتے‘ آپ بتائیں سکندر مرزا کہاں دفن ہیں۔جنرل ایوب خان‘ جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاءالحق کہاں مدفون ہیں اور کون ان کی قبر پر فاتحہ پڑھتا ہے ؟یہ سب بھی ناگزیر ہوتے تھے مگر وقت انہیں روند کر آگے نکل گیا‘ ہماری تاریخ میں بار بار ایسا وقت آیا جب کرسی پر بیٹھے لوگوں کا کوئی آپشن‘
کوئی چوائس نہیں ہوتی تھی لیکن پھر یہ لوگ سوکھے پتوں کی طرح ہوا میں بکھر گئے۔لوگ ان کے نام تک بھول گئے اور آپ یہ بھی یاد رکھیں یہ لوگ قدآور تھے‘ یہ لوگ پھر بھی زندگی میں کچھ نہ کچھ کر گئے‘ ایوب خان کے دور کو پاکستان کی ترقی کا دور کہا جاتاتھا‘ یحییٰ خان نے پاکستان کی تاریخ کا غیر جانب دار ترین الیکشن کرایا‘ یہ امریکا اور چین کو ایک میز پر لے آئے اور یہ ایک عالمی کارنامہ تھا
اور جنرل ضیاءالحق نے سوویت یونین کو شکست دی اور افغان جنگ لڑی لیکن آپ نے کیا کیا‘ آپ کا کیا کارنامہ ہے؟آپ اپنے دعوے بھی دیکھیں یوں محسوس ہوتا ہے آپ سب کچھ جانتے ہیں‘ آپ سے یورپ کی بات کریں تو آپ کہتے ہیں یورپ کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا‘ آپ سے انڈیا کی بات کریں تو آپ کہتے ہیں مجھ سے بڑا انڈیا کا کوئی ایکسپرٹ نہیں‘ آپ ملک میں غریب کے سارے مسئلے بھی جانتے ہیں‘
آپ دنیا کے سب سے بڑے زرعی ایکسپرٹ بھی ہیں۔آپ دنیا میں ٹیکس جمع کرنے کے بھی سب سے بڑے ماہر ہیں‘ آپ کرپٹ لوگوں سے پیسہ نکالنے کے بھی سب سے بڑے فلاسفر ہیں اور آپ کورونا اور لاک ڈاؤن کے بھی دنیا کے سب سے بڑے ماہر ہیں‘ آپ کے دعوے دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے آپ مریخ پر بھی دس پندرہ مرتبہ جا چکے ہوں گے اور آپ وہاں وکٹیں بھی گاڑھ آئے ہیں۔حالات یہ ہیں آپ کسی کی
سننے کے لیے یتار نہیں ہیں‘مافیاز آپ سے ایک رات میں 25 روپے لیٹر پٹرول مہنگا کرا لیتے ہیں لیکن آپ اس کے باوجود خود کو ناگزیر بھی سمجھتے ہیں‘ کیا بات ہے آپ کی!۔آپ بھی میری طرح جب وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزراءکی گفتگو سنتے ہوں گے توآپ کو بھی محسوس ہوتا ہو گا پاکستان ان کی اہلیت‘ ان کے وژن اور ان کے منشور کے سامنے بہت چھوٹا ملک ہے
ان لوگوں کو دراصل پورے برصغیر‘ پورے یورپ یا پھر پورے امریکا کا لیڈر ہونا چاہیے تھا‘آپ یقین کریں یہ لوگ اگر افریقہ میں ہوتے تو افریقہ آج یورپ بن چکا ہوتا‘ یہ اگر یورپ میں ہوتے تو یورپ امریکا اور یہ اگر امریکا میں ہوتے تو امریکا کھسک کر چاند پر پہنچ چکا ہوتا‘ پاکستان ان لوگوں کے وژن سے میچ ہی نہیں کرتا۔