بیجنگ(آن لائن) چینی سائنس دانوں نے پینگولن نامی جانور کو کرونا وائرس کی وجہ قرار دیدیا جبکہ عالمی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کروناوائرس پینگولن نامی جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا ۔منگل کے روز وائس چیئرمین پاکستان وائلڈ لائف کنزرویشن فاؤنڈیشن صفوان شہاب احمد نے ’’آن لائن‘ ‘کو خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ ممکن ہے چین میں تباہی مچانے والا کرونا وائرس چکوال سے ہی پینگولن کے ذریعے گیا ہو۔
پاکستان میں پائے جانیوالے پینگولن کی چین میں قیمت 10لاکھ ہے ، محکمہ وائلڈ لائف مافیا کی وجہ سے صرف کاغذی کاروائی تک محدود ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ جانور درختوں کو لگنے والی دیمک کو کھاتا ہے جو ماحول کیلئے ناگزیر ہے ،اگر یہی سلسلہ چلتا رہا توہمارے جنگلات ختم ہو جائیں گے ،ملک بھر میں پینگولن کی تعداد غیر معمولی حد تک کم ہو چکی ہے اور اس حوالے سے قوانین بہت پرانے ہیں جن پر حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان سے چین میں پینگولن کی سمگلنگ بڑے منظم چینلز کے ذریعے ہو رہی ہے ، مافیا کی سرپرستی کرنیوالوں میں وائلڈ لائف و کسٹم حکام بھی شامل ہیں جبکہ 18ترمیم کے بعد عالمی جانوروں کی حفاظت وفاق کے ذمے ہے لیکن وہ صرف صوبوں کو خط لکھنے تک محدود ہے انہوں نے مزید بتایا کہ چند سال قبل تک پاکستان کسٹم پینگولن کی سمگلنگ سے متعلق اعداد و شمار جاری کرتا تھا مگر اب اس تجارت سے وابستہ پیسے کی طاقت کے آگے سارے ادارے بے بس ہو چکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ایک پینگولن 25 ہزار کا بکتا ہے جو چین پہنچ کر 10لاکھ کا ہو جاتا ہے جبکہ اس کی کھال پر لگے ہوئے چھلکوں کی قیمت چینی مارکیٹ میں ساڑھے 4لاکھ روپے کلو تک ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب وائلڈ لائف والے کہیں چھاپہ مارتے بھی ہیں تو چھلکوں کی 80 فیصد تعداد راستے میں ہی غائب کر دی جاتی ہے اور کاغذی کارروائی پور ی کر دی جاتی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پینگولین ماحول کیلئے بہت اہم جانور ہے لیکن اس کے بیدردی سے شکار سے اسے معدومی کا خطرہ ہے ، محکمہ وائلڈ لائف کے قوانین ابھی تک وہی پرانے ہیں اور پینگولن کے پکڑنے پر 15 ہزار جرمانہ یا 6ماہ قید ہے جبکہ انڈیا میں پینگولن پکڑنے پر 20 سال قید یا 2کروڑ جرمانے کی سزا ہے۔
پینگولن ایک نہات ماحول دوست جانور ہے یہ چیونٹیاں اور دیمک کھاتا ہے لیکن گذشتہ سالوں میں اس کے غیر قانونی کاروبار کی وجہ سے سندھ اور خیبر پختونخوا میں اس کی تعدا د میں 90 فیصد،پنجاب میں 80 فیصد اور آزاد کشمیر میں 50 فیصد تک کمی آ چکی ہے ‘جس کی وجہ سے ان علاقوں میں جنگلوں کو دیمک کھا رہی ہے۔صفوان شہاب نے بتایا کہ ان علاقوں میں جانے سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں 10‘دس فٹ تک درختوں پر دیمک چڑھ چکی ہے اور پوٹھوہار اور آزاد کشمیر کے جنگلات دیمک کیوجہ سے مر رہے ہیں اور شاید اگلے چند سالوں میں یہ بالکل ہی ختم ہو کر رہ جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان سے چین میں پینگولن کی غیر قانونی سمگلنگ بڑے منظم چینلز کے ذریعے ہو رہی ہے اور مافیا نے اس میں پکھی واسوں کو لگایا ہوا ہے جو پینگولن کو پکڑتے ہیں پھر اس کا گوشت اور اس کے جسم پر لگے چھلکوں کو الگ الگ کرتے ہیں‘اس مافیا کی سرپرستی کرنے والوں میں محکمہ وائلڈ لائف اور کسٹم کے حکام بھی شامل ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب میں محکمہ وائلڈ لائف کا اعزازی وارڈن ایک عالمی شکاری کو لگایا گیا ہے۔
اسی طرح 18ویں ترمیم کے بعد وائلڈ لائف کا محکمہ صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے اور صوبے وفاق کی مانتے ہی نہیں‘وفاق چونکہ ان عالمی معاہدوں کو دستخط کردہ ہے جن کی رو سے نایاب جانوروں کی نسلوں کے تحفظ اس کی ذمہ داری ہے مگر وہ اپنی ذمہ داری صرف صوبوں کو خط لکھنے تک محدود کر چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پینگولن کی آبادی تیزی سے معدوم ہو رہی ہے اور صرف گذشتہ 3سالوں میں اس کی تعداد میں 84 فیصد کمی آ چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ سندھ وائلڈ لائف نے جنوری 2019 میں کچھووں اور پینگولن کا 2ہزار کلو گوشت پکڑا ‘جسے سمگلنگ کی غرض سے ذخیرہ کیا گیا تھا مگر اس وقت صورتحال بڑی عجیب ہو گئی جب وائلڈ لائف کے دفتر سے یہ قیمتی گوشت چرا لیا گیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ یہ چوری محکمے کی ملی بھگت سے ہوئی ہے۔کوئی شبہ نہیں کہ چین میں تباہی مچانے والا کرونا وائرس چکوال سے ہی پینگولن کے ذریعے چین گیا ہو اور وہاں سے یہ انسانوں میں منتقل ہو گیا ہو۔دوسری جانب خبر رساں ادارے کے مطابق چین کے شہر ووہان میں جنگلی جانوروں کی ایک بہت بڑی منڈی موجود ہے جہاں سے اس موذی مرض نے جنم لیا اور پہلا مریض بھی شہر ووہان سے ہی رپورٹ ہوا ۔
مرض کے آغاز میں حکام اور عالمی میڈیا کی جانب سے کہا گیا کہ یہ موذی مرض خنزیروں اور چمگادڑوں کے گوشت سے آیا لیکن طبی ماہرین کی جانب سے جاری حالیہ بیان میں کہا گیا کہ یہ وائرس پینگولن نامی جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔معروف سائنسی جریدے ’’نیچر‘‘ میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس پینگولن میں پایا جاتا ہے اور جب اس وائرس کے جینیاتی مواد کا موازنہ ووہان کے کرونا وائرس سے کیا گیا تو پتہ چلا کہ دونوں میں 99 فیصد اشتراک ہے۔
واضح رہے کہ پینگولن کا گوشت بہت مہنگا اور چینی اسے شوق سے کھاتے ہیں اور یہ جانور پاکستان میں عام پایا جاتا ہے‘چینی اس جانور کو مختلف ممالک سے درآمد کرتے ہیں‘جن میں پاکستان بھی شامل ہے،گذشتہ ایک دہائی سے پاکستان سے پینگولن کی غیر قانونی سمگلنگ میں بھی غیر معمولی حد تک اضافہ ہوا ہے ۔اس ضمن میں حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان سے جانوروں کی غیر قانونی سملگلنگ میں سب سے بڑی تعداد پینگولن کی ہے،پینگولن کو اردو زبان میں چیونٹی خور بھی کہا جاتا ہے اور یہ پاکستان کے کئی علاقوں میں پایا جاتا ہے لیکن اس کی سب سے بڑی تعداد پوٹھوہار ی علاقے بلخصوص چکوال میں پائی جاتی ہے۔