بریگیڈئر (ر) راجہ رضوان کے ”را“ کے ساتھ تعلقات کب اور کیسے قائم ہوئے، پاک فوج نے خفیہ تعلقات کا پتہ کیسے چلایا؟ سزائے موت پانے والے فوجی افسر سے متعلق معلومات منظر عام پر آ گئیں

31  مئی‬‮  2019

راولپنڈی(نیوز ڈیسک) پاکستان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز دو فوجی افسران اور ایک سول افسر کو جاسوسی اور غیر ملکی ایجنسیوں کو حساس معلومات فراہم کر نے کے الزام میں دی گئی سزا کی توثیق کی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق افسران کا پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت علیحدہ علیحدہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا گیا۔جن افسران کو سزائیں دی گئی ہیں ان میں بریگیڈئیر (ر)راجہ رضوان کو سزائے موت، لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو چودہ سال قید با مشقت اور ایک حساس ادار ے کے سول ملازم ڈاکٹر وسیم اکرم کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔

اس حوالے سے ایک موقر قومی روزنامے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ غداری کی سزا پانے والے بریگیڈئر (ر) راجہ رضوان کے حوالے معلومات سامنے آئی ہیں کہ وہ فوج میں کئی اہم عہدوں پر رہے ہیں اور 2014ء میں وہ آرمی سے ریٹائر ہونے کے بعد اسلام آباد میں رہ رہے تھے، ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سکیورٹی ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی ان پر نظر رکھے ہوئے تھے اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان پر نظر رکھی گئی، بریگیڈئر (ر) راجہ رضوان 2009ء سے 2012ء کے دوران ملٹری اتاشی کے طور پر اہم یورپی ممالک میں رہے اور اسی موقع پر ان کا رابطہ بھارتی خفیہ ایجنسی را سے ہوا، ذرائع کا کہنا ہے کہ راجہ رضوان نے جرمنی اور آسٹریا میں تعیناتی کے دوران بھارت کو بھاری رقوم کے عوض ملکی راز فروخت کیے، ذرائع کا کہناہے کہ اس بارے میں فوجی تحقیقاتی ادارے کو اس بات کا علم ہو گیا تھا اسی وجہ سے راجہ رضوان کی نگرانی مزید سخت کر دی گئی۔ فوجی ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے راجہ رضوان نے دشمن کو جو راز بیچے اس سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن انہیں غلطی کی سزا مل گئی ہے۔10 اکتوبر 2018ء کو راجہ رضوان جب اپنے ڈرائیور کے ساتھ دوست کو ملنے جا رہے تھے تو جی ٹین مارکیٹ اسلام آباد سے انہیں تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ جب کئی روز تک وہ گھر واپس نہ آئے تو ان کے بیٹے علی رضوان نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور درخواست میں موقف اختیار کیا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس تین افراد دس اکتوبر کی رات میرے والد کو اغواء کرکے لے گئے ہیں اور تب سے میرے والد کا موبائل بھی بند جا رہا ہے،

ہائی کورٹ میں اس کی سماعت ہوئی اور پندرہ نومبر 2018ء کو عدالت میں وزارت دفاع کے نمائندے نے بتایا کہ راجہ رضوان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے اور ایک فوجی ہونے کی وجہ سے آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کا مقدمہ کیا جائے گا، اس طرح گزشتہ روز آرمی چیف قمر جاوید باجو ہ نے راجہ رضوان کی سزائے موت کی توثیق کر دی ہے۔واضح رہے کہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ یکساں احتساب کی پالیسی پرآئندہ بھی سختی سے عمل ہوگا، گزشتہ2 سالوں میں مختلف رینک کے 400 افسران کو سزائیں دی گئیں، متعدد افسران کو نوکریوں سے فارغ ہونا پڑا،

لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد افضل اور میجرجنرل (ر) خالد زاہد اختر کو این ایل سی کے4.3 ارب اسٹاک مارکیٹ میں لگانے سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا، اسد درانی کو”را“ کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ ملکر کتاب لکھنے پرکورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 آرمی اور ایک سویلین افسر کی سزا کی توثیق کردی، تینوں افسران کو جاسوسی کے الزام میں سزائیں دی گئیں۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ان افسران میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال کو 14سال کی قیدسزاسنائی گئی جبکہ بریگیڈیئر (ر) راجہ رضوان کو سزائے موت کی سز اسنائی گئی۔اسی طرح ایک سویلین افسر جس میں ڈاکٹر وسیم اکرم کو سزائے موت کی سزا سنائی گئی۔ آرمی چیف نے تینوں افسران کی سزاؤں کی توثیق کردی ہے۔

فوج کے دونوں افسران غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کو معلومات دے رہے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ آرمی چیف نے 2 آرمی اور ایک سویلین افسرکو راز افشاں کرنے پر سزائیں سنائیں۔ فوجی افسران کا کورٹ مارشل مکمل ہونے کے بعد سزائے سنائی گئیں۔ان تمام افسران پرقومی سکیورٹی کے راز افشاں کرنے پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے گئے تھے۔ واضح رہے گزشتہ 2 سال میں مختلف رینک کے 400 افسران کو سزائیں دی گئیں۔ جس میں این ایل سی اسکینڈل میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد افضل کو دی گئی،این ایل سی اسکینڈل میں میجرجنرل (ر) خالد زاہد اختر کو بھی سزائیں ہوئیں۔ دونوں افسران پراین ایل سی کے4.3ارب اسٹاک مارکیٹ میں لگانے کا الزام ہے۔متعدد افسران کو نوکریوں سے فارغ ہونا پڑا۔ اسی طرح جنرل اسد درانی کا احتساب بھی اسی پالیسی کے تحت عمل میں آیا۔ آئندہ بھی احتساب کی پالیسی پر یکساں عملدرآمد ہوگا۔ جنرل (ر) اسد درانی کیخلاف ”را“ کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ ملکر کتاب لکھنے کا الزام ہے۔ جنرل (ر)اسد درانی کو ”را“ کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ ملکر کتاب لکھنے پرکورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…