اسلام آباد(اے این این ) نقیب اللہ صرف میرا شوہر نہیں تھا بلکہ میرا خیال رکھنے والا بہترین دوست تھا، وہ کہتا تھا اچھے دل کے لوگ طویل عرصے تک نہیں رہتے، شاید وہ ٹھیک کہتا تھا۔یہ جملے مقتول نقیب اللہ محسود کی اہلیہ میرقدانہ کے ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ انٹرویو دیتے ہوئے اپنے شوہر کے کراچی آنے اور اس کے ساتھ گزارے گئے وقت پر تفصیلی گفتگو کی۔
میں اس کے ساتھ خوش تھی اور جیسے بھی ہوسکے اس کا اور اس کی چیزوں کا خیال رکھتی تھی جس کے لیے وہ میری ہمیشہ اپنے دوستوں کے سامنے تعریف کیا کرتا تھا’۔آپ ضرور نقیب اللہ کی تصاویر دیکھ چکے ہوں گے، اسے دلکش دکھنا اور پھر تیار ہونے کے بعد اپنی تصاویر لے کر لطف اندوز ہونے کا شوق تھا، میں اکثر اسے چھیڑا کرتی تھی ‘اور کتنی دیر لگا ؤگے تیار ہونے میں اتنی دیر سے تو دلہنیں بھی تیار نہیں ہوتیں، لیکن اس کے چاہنے والے بہت تھے جن کے بارے میں وہ مجھے اکثر بتایا کرتا تھا، ان میں لڑکیاں بھی شامل تھیں جن سے مجھے پریشانی ہوتی تھی۔وہ کراچی جانے کے بعد بھی مجھے نہیں بھولا ہم روز فون پر بات کرتے تھے، ہر دن وہ کہا کرتا تھا کہ وہ گھر جلدی لوٹے گا اور جب میں اپنے گھر ڈیرہ اسماعیل خان جاتی تھی تو وہ کہا کرتا تھا کہ میں جلد واپس آؤں گا پھر ہم ساتھ جنوبی وزیرستان جائیں گے۔نقیب اللہ قتل ہونے سے قبل 4 ماہ سے کراچی میں مقیم تھا جو اپنی رہائش کی تلاش میں تھا، وہ اکثر کبھی اپنے انکل کے گھر یا کسی دوست کے گھر قیام کرتا تھا، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے بہت دوست تھے اور وہ تعمیراتی جگہ پر کام کیا کرتا تھا۔حالانکہ اس کے خواب بہت تھے لیکن اس میں سے ایک کراچی میں کپڑوں کی دکان کھولنا تھا۔
وہ مجھے کہتا تھا کہ میں ایک دکان کرائے پر لینا چاہتا ہوں اور وہاں خود سے کپڑوں کی رنگائی کا کام کروں گا، ایک بار کاروبار جم گیا تو وعدہ ہے کہ مجھے اور بچوں کو کراچی بلا لے گا۔ایک یوٹیوب ویڈیو جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ میں کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ کے ایک اسکول میں پڑھاتی ہوں، اس کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ میں تعلیم یافتہ خاتون ہوں، نہ ہی کبھی کراچی گئی ہوں، جب سے شادی ہوئی ہے میں اپنے گھر میں سسرال والوں کے ساتھ رہتی ہوں اس کے علاوہ میں کہاں گئی ہوں گی؟
آخری بار جب ہم نے بات کی تھی تو اس نے مجھ سے ہمارے بیٹے کی ویڈیو مانگی تھی، بیٹے نے اس وقت پہلی مرتبہ بغیر سہارے کے چلنا سیکھا تھا، اس وقت نقیب ہمارے ساتھ نہیں تھا اور اپنے بیٹے کو دیکھنے سے محروم تھا، تو میں نے وعدہ کیا کہ میں جلد ہی ویڈیو بھیجوں گی، اس پوری گفتگو کے دوران میں سمجھ گئی تھی کہ وہ پریشان ہے۔فون بند کرنے سے قبل اس نے کہا تھا کہ مجھے نہیں پتا کیا ہورہا ہے میں اپنے آپ کو واپس گھر نہیں لاسکتا اور یہ اس کے آخری الفاظ تھے۔اس کے بعد اس نے مجھے فون نہیں کیا وہ کبھی ڈیرہ اسماعیل خان یا جنوبی وزیرستان نہیں لوٹا، سچ بتاؤں آپ کو تو میں غصے میں تھی لیکن مجھے اس وقت نہیں پتا چل سکا کہ راؤ انوار اسے مجھ سے چھین چکا تھا۔