اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)افغانستان میں قتل ہونیوالے ایس پی طاہر داوڑ شہید کو اسلام آباد سے اغوا کے بعد پنجاب میں کچھ دن رکھا گیا اور براستہ میانوالی خیبرپختونخواہ کے شہری بنوں اور پھر وہاں سے افغانستان منتقل کیا گیا، وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کا سینٹ میں اظہار خیال، اسلام آباد کے سیف سٹی کے کیمروں کو ناقص اور ناکارہ قرار دیتے ہوئے منصوبے میں
کرپشن کی تحقیقات کیلئے سینٹ کی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے سینٹ میں ایس پی طاہر داوڑ کے افغانستان میں قتل پر اظہار خیال کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ایس پی طاہر داوڑ کو اسلام آباد کے سیکٹر جی ٹین سے اغوا کیا گیا تھا وہ وہاں اپنے عزیز کی شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے گئے تھے۔ ایس پی طاہر داوڑ کو 26اکتوبر کو اغوا کیا گیا اور ان کے بھائی نے تھانہ رمنہ اسلام آباد میں انکے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر کٹوائی تھی۔ شہریار آفریدی نے بتایا کہ ایس پی طاہر داوڑ کو اغوا کاروں نے چند دن اسلام آباد سے اغوا کے بعد پنجاب میں رکھا جس کے بعد انہیں میانوالی کے راستے خیبرپختونخواہ کے شہر بنوں منتقل کیا گیا اور پھر وہاں سے افغانستان لے جایا گیا۔ شہریار آفریدی نے ایس پی طاہر داوڑ کی تحقیقات کے حوالے سے مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے تمام ملبہ اسلام آباد کے سیف سٹی پروجیکٹ کے کیمروں پر ڈالتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ان کیمروں میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ یہ گاڑی کی نمبر پلیٹ یا کسی کے چہرے کو شناخت کرنے کے قابل ہوں جبکہ 90فیصد کیمرے ناکارہ ہیں۔ شہریار آفریدی نے اس موقع پر اسلام آباد سیف سٹی پروجیکٹ میں کرپشن کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے میں کرپشن کی ہی وجہ سے اچھے کیمروں کے بجائے ناقص کیمرے لگائے گئے اور کک بیکس لی گئی۔ انہوں نے کہا کہ میری وزارت اپنی طرف تو اس کی تحقیقات کریگی تاہم ہماری کارروائی سے تاثر لیا جائیگا کہ کسی جماعت کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں لہٰذا اس معاملے کی تحقیقات کیلئے سینٹ کی کمیٹی بنائی جائے ۔ شہریار آفریدی نے کہا کہ ایس پی طاہر داوڑ قوم کے بیٹے تھے اور ان کا اندوہناک قتل نہایت افسوسناک ہے۔