کوئٹہ /لندن (آئی این پی)پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو پہل کرتے ہوئے کشمیر کو آزاد کرنے کی تجویز رکھنی چاہیے،مسئلہ کشمیر کا حل اس کی آزادی ہے، بھارت اور پاکستان کو اس مسئلہ پر نئی راہ اپناتے اور اختراع کرتے ہوئے آزا د کردینا چاہئے ، کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان جھگڑے کی جڑ ہے، افغانستان میں سوویت فوجیں آئیں تو دنیا کے لیے مسئلہ پیدا ہوا
اس کے لیے یہ سب کچھ بنا۔ اب ہمیں توبہ کرنی ہے،ہمیں افغانستان ، ایران اور بھارت سے امن قائم کرنا ہوگا،’امریکہ اور جہاد یوں سے چھٹکارا پانا ہوگا ورنہ اس خطے میں آگ لگے گی ،پاکستان اگر اخلاص سے کام کرے تو افغانستان کے 60 فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں،ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا ملک ٹوٹا،بدقسمتی ہے کہ ہم یہاں لیڈر ایجاد کرنا چاہتے ہیں ،پاکستان کا واحد علاج یہ ہے کہ یہاں ہر ادارہ اپنی حدود میں رہے اور آئینی طور پر آزاد ہو ، فوج اپنے دائرے میں ہو، صحافی اپنے دائرے میں ہوں، سیاست اپنے دائرے میں اور دوسرے ادارے اپنے دائرے میں، منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو، اور پاکستان کی تمام داخلی اور خارجی پالیسیاں قومی اسمبلی میں جنم لیں۔ پاکستان کے قیام کے 70 برس مکمل ہونے کی مناسبت سے جمعہ کو برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیئے گئے خصوصی انٹرویومیںمحمود خان اچکزئی نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو پہل کرتے ہوئے کشمیر کو آزاد کرنے کی تجویز رکھنی چاہیے کیونکہ مسئلہ کشمیر کا حل اس کی آزادی ہے۔اس سوال پر کہ کیا بھارت اپنے کنٹرول والا کشمیر چھوڑنے پر رضامند ہوجائے گا؟ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا، ‘نہ ہو لیکن ہم تو بچ جائیں گے۔ان کے مطابق دونوں حصوں میں بٹے کشمیر کو آزاد کرنے کی بات سے پاکستان دنیا کو بتا سکے گا کہ وہ مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے۔، ‘ہم کشمیر کے معاملے پر ایک نئی راہ کیوں نہیں اپناتے،
اسے آزاد کر دیں، بھارت بھی اور پاکستان بھی۔۔۔ کشمیر جھگڑے کی جڑ ہے۔ اسے حل کرنے کے لیے اختراع ہم کیوں نہیں کرتے؟۔ان کے مطابق ‘ہم استصواب رائے پر مصر ہیں، ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں، لوگ غریب مر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے پڑوسیوں سے حالات ٹھیک کرنا ہوں گے۔ایک سوال کے جواب میں پختون قوم پرست رہنما نے کہا کہ ‘یہ انتہائی بیوقوفی ہوگی کہ ہم اپنے مخالف سے امید کریں کہ وہ مداخلت نہیں کرے گا۔ ہم سی پیک نہیں بنا سکیں گے اگر امن نہیں ہوگا۔
ہمیں افغانستان سے، ایران سے اور بھارت سے امن قائم کرنا ہوگا۔ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر بات کرتے ہوئے، محمود خان اچکزئی نے کہا کہ افغانستان میں سوویت فوجیں آئیں تو دنیا کے لیے مسئلہ پیدا ہوا اس کے لیے یہ سب کچھ بنا۔ اب ہمیں توبہ کرنی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘امریکہ اور جہاد کے حامیوں کی مدد سے یہاں لاکھوں غیرملکیوں کو تربیت دی گئی۔ میرا خیال ہے کہ امریکہ اور ہمارے ملک کے کرتا دھرتا یہ جانتے ہیں کہ انھوں نے کس کس کو تربیت دی ہے،
بس اب ان سے چھٹکارا حاصل کرلیں، ختم کر دیں۔ ختم نہیں کریں گے تو اس خطے کو آگ لگے گی۔انھوں نے کہا کہ افغانستان کی خودمختاری کا احترام کیا جائے ، ورنہ بربادی ہو سکتی ہے۔ توبہ کرلیں، ہماری اسٹیبلشمنٹ پیچھے چلی جائے، الیکشن میں مداخلت نہ کریں، سیف ہاسز کے تماشے بند کردیں، لوگوں پر اعتماد کریں، جو جیت کر آتا ہے اس پر اعتماد کریں۔محمود خان اچکزئی کے مطابق، پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کا الزام ہے اور انھیں یقین ہے کہ افغانستان سے بھی پاکستان میں مداخلت ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان اگر اخلاص سے کام کرے تو افغانستان کے 60 فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں۔انھوں نے سوال کیا کہ پاکستان کا ایک مضبوط وفد افغانستان جا رہا تھا، تو اس وقت احسان اللہ احسان کو ٹی وی پر کیوں بٹھا دیا گیا؟ ‘ کیا پیغام دینا چاہتے تھے ہم اس وقت؟۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا ملک ٹوٹا۔ دنیا بھر میں اقلیتیں تحریکیں چلاتی ہیں اور اعتراض کرتی ہیں لیکن ہم سے اکثریت بھاگ گئی۔ بار بار انھوں نے کہا ہم 55 فیصد ہیں ہمیں حقوق دو، ہماری زبان کو اہمیت دو،
لیکن ہم نہیں مانے۔انھوں نے کہا ‘بدقسمتی ہے کہ ہم یہاں لیڈر ایجاد کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان کا واحد علاج یہ ہے کہ یہاں ہر ادارہ اپنی حدود میں رہے اور آئینی طور پر آزاد ہو۔ فوج اپنے دائرے میں ہو، صحافی اپنے دائرے میں ہوں، سیاست اپنے دائرے میں اور دوسرے ادارے اپنے دائرے میں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو، اور پاکستان کی تمام داخلی اور خارجی پالیسیاں قومی اسمبلی میں جنم لیں۔ ‘جو یہ کرتا ہے وہ پاکستان کا دوست ہے اور جو نہیں کرتا وہ پاکستان کی بربادی کا ذمہ دار ہے۔+
محمود خان اچکزئی کے مطابق تمام دنیا اس بات پر متفق ہے کہ دنیا میں حکمرانی کا بہترین نظام جمہوریت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک کو چلانے کا طریقہ کار ہوتا ہے، ملک کو چلانے کے لیے آئین ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں آئین کی تاریخ بہت بری رہی ہے، لمبے عرصے تک بننے ہی نہیں نہیں دیا گیا۔ آخر بنا تو اس کو بار بار توڑا گیا۔’آئین کی پاسداری ہر شخص پر لازم ہے، چاہے وہ وردی پوش ہو، چاہے وہ ملا ہے، چاہے وہ پیر ہے، فقیر ہے، چاہے اس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے یا بندوق آئین سب کے لیے لازمی طور پر محترم ہونا چاہیے۔
بانی پاکستان محمد علی جناح کے ملک کے بارے میں وژن پر بات کرتے ہوئے، محمد خان اچکزئی نے کہا 11 اگست 1947 کی ان کی تقریر بڑی واضح ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اب ہمیں ماضی کو بھول جانا چاہیے، ہمیں ہر انسان کے عقیدے کا احترام کرنا ہوگا۔ ہر شخص جو پاکستان کا شہری ہے وہ قانون کی نظر میں برابر ہے۔’پاکستان کو چلانے اور اس کو اچھا مقام دلانے کے لیے ضروری ہے کہ یہ ایک شفاف وفاقی جمہوریت ہو۔انھوں نے کہا پاکستان میں سب ایک لوگ نہیں ہیں،
مختلف زبانیں ہیں، مختلف کلچر ہیں، یہ کثیرالقومی اور کثیرالثقافتی ملک ہے۔ اس میں بلوچ، پشتون، سندھی، سرائیکی، پنجابی سب اپنے اپنے تاریخی مادر وطن میں رہ رہے ہیں۔بلوچستان میں جاری حکومت مخالف عسکریت پسند تحریک پر بات کرتے ہوئے، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ بلوچ اور پشتون بہت غریب لوگ ہیں۔ صوبے کے وسائل بہت زیادہ ہیں مگر انھیں گیس تک نہیں دی گئی۔’ کون آپ کو لوٹنے کے لیے چھوڑے گا؟ وہ کیا آپ کو اپنے خزانے لینے دیں گے۔ آج یہ اعلان کریں کہ جن کے جو وسائل ہیں ان پر مقامی لوگوں کا حق ہے، تو ساری مزاحمت ختم ہوجائے گی۔ اس طرح جنھوں نے ملک چلایا، وہ تباہ ہوگئے۔