اتوار‬‮ ، 15 جون‬‮ 2025 

شیان میں آخری دن

datetime 15  جون‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں لیکن یہ اس کے باوجود بڑی سیاحتی کشش ہے‘ شہر کی دیوار ہر دور میں بنتی اور ٹوٹتی رہی‘ یہ آخری مرتبہ 1368ء میں منگ ڈائنیسٹی میں بنی اور آج تک قائم ہے‘ میں نے زندگی میں پرانے شہروں کی بے شمار دیواریں دیکھیں‘ اصفہان‘ شیراز‘ خیوا‘ استنبول‘ دمشق‘ فیض‘ غرناطہ‘ باکو اور تبلیسی کی فصیلیں بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا اور لکسر شہر کی فرعونوں کے زمانے کی دیواریں‘ پیٹرا میں حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے کی فصیلیں اور عادوثمود کی بستیوں کی قدیم دیواریں بھی دیکھنے کا موقع ملا لیکن شیان شہر کی دیوار کی کوئی مثال موجود نہیں‘ یہ واقعی دیکھنے بلکہ محسوس کرنے لائق ہے‘ ہم شہر کی مشرقی سائیڈ سے دیوار کے اندر داخل ہوئے‘

ہمارے سامنے سرنگ نما دروازے تھے‘ یہ محراب نما تھے‘ سرنگ کے شروع میں بھی گیٹ تھا اور آخر میں بھی‘ ہم جب سرنگ سے باہر نکلے تو سامنے بڑا سا صحن تھا‘ اس کی چاروں سائیڈز پر 40فٹ بلند دیواریں تھیں‘ صحن میں بیک وقت ہزار کے قریب لوگ جمع ہو سکتے ہیں‘ گیٹ کے بالکل سامنے چھت پر چینی سٹائل کی پانچ منزلہ عمارت تھی‘ اس کی ساری کھڑکیاں صحن کی طرف کھلتی تھیں‘ پرانے زمانے میں اس عمارت میں تیر انداز بیٹھتے تھے‘ عمارت کی مخالف سائیڈ پر بھی اسی نوعیت کی عمارت تھی‘ وہاں بھی یقینا تیر انداز بیٹھتے ہوں گے‘ یہ بندوبست دشمن سے نبٹنے کے لیے تھا‘ دشمن اگر گیٹ توڑ کر اندر آ جاتا تھا تو وہ صحن میں محصور ہو کر رہ جاتا تھا اور اسے اوپر سے تیروں کی بارش کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘ صحن کی دونوں سائیڈز پرسیدھی سیڑھیاں تھیں‘ سیڑھیوں پر چڑھنے کے لیے گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا پڑتا تھا‘ میں نے اوپر جاتے وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اس نے مجھے جوانی میں اپنی دنیا دیکھنے کی توفیق عطا کی اگر میں دنیا کے زیادہ تر لوگوں کی طرح ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتا رہتا تو آج شاید میں اپنے گھر سے باہر نہ نکل سکتا‘ہم اوپر دیوار پر پہنچے تو وہاں نظارہ ہی مختلف تھا‘ شہر کی بلند عمارتوں کے درمیان 39 سے 46 فٹ چوڑا واک وے تھا‘ یہ دیوار تھی‘ اس پر باقاعدہ ٹرک چلائے اور گھوڑے دوڑائے جا سکتے تھے‘ اس کی کل لمبائی 14 کلو میٹر ہے‘

اسے پیدل عبور کرنے کے لیے تین سے چار گھنٹے درکار ہیں‘ آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر فوجیوں کی چوکیاں تھیں‘ ہر چوکی کے قریب ریمپ تھا‘ اس کا مقصد گھوڑوں اور پرانے زمانے کی منجنیقوں کے ساتھ اوپر نیچے آنا تھا‘ ہر چوکی سے دوسری چوکی نظر آتی تھی تاکہ سپاہی ایک دوسرے کو پیغام بھی دے سکیں اور شہر کی حفاظت بھی کر سکیں‘ شہر کے بعض حصے دیوار سے نیچے تھے‘ انہیں اوپر سے دیکھنا دل چسپ سرگرمی تھی‘ سائیڈ کی عمارتوں میں ہوٹل اور ریستوران تھے‘ بالکونیوں سے دیوار نظر آتی تھی‘ شیان کی سٹی وال چین کی گریٹ وال کا چھوٹا سا بچہ ہے‘ اس کی تعمیر میں دیوار چین جیسا مٹیریل استعمال ہوا تھا اور اس کا طرز تعمیر بھی دیوار چین جیسا تھا۔
شیان کی فضا میں ایک کھلا پن ہے‘ آپ کو کسی جگہ گھٹن کا احساس نہیں ہوتا‘ چین کے مختلف شہروں سے عجیب سی بدبو آتی ہے لیکن یہ بو آپ کو شیان میں محسوس نہیں ہوتی‘ موسم خوش گوار ہے‘ بارشیں ہوتی رہتی ہیں‘

ٹریفک میں نظم وضبط اور سلیقہ ہے‘ آپ کو کسی جگہ ہڑ بونگ اور افراتفری نظر نہیں آتی‘ حلال کھانا بھی مل جاتا ہے‘ ہم نے حلال چینی کھانا کھایا اور اسے خوب انجوائے کیا‘ یہ 12 میل کورس تھا جس میںمختلف قسم کے درجن بھر کھانے تھے‘ پورے چین میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس تین مختلف رنگوں میں ہوتی ہیں‘ گرین نمبر پلیٹ الیکٹرک گاڑیوں کو الاٹ ہوتی ہے‘ آپ کو اگر شہر میں گرین نمبر پلیٹ نظر آئے تو اس کا مطلب ہو گا یہ گاڑی الیکٹرک ہے‘ نیلی نمبر پلیٹ نارمل گاڑیوں کو الاٹ ہوتی ہے جب کہ سات نشستوں سے زیادہ والی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پیلی ہوتی ہے اور یہ عموماً پبلک ٹرانسپورٹ یا سیاحوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں‘ سڑک پر کسی جگہ پولیس‘ فوج یا ہتھیار نظر نہیں آتے‘ میں نے گائیڈ سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا پورا ملک سمارٹ کیمروں سے منسلک ہے‘ پولیس فورس سارا دن کیمروں سے شہریوں کو دیکھتی رہتی ہے‘ حکومت نے ظاہری کیمروں کے ساتھ ساتھ خفیہ کیمرے بھی لگا رکھے ہیں‘ چین میں کوئی شخص ان کیمروں سے بچ نہیں سکتا‘ دوسرا تمام شہریوں کا ڈیٹا حکومت کے پاس ہے‘

چین کا کوئی شہری اگر کسی کیمرے میں آ گیا تو پھر اسے تلاش کرنے میں چند سیکنڈز لگتے ہیں‘ سیاحوں کو بھی بار بار کیمروں سے گزرنا پڑتا ہے‘ ان کے پاسپورٹ بھی ہر پبلک مقام پر سکین ہوتے ہیں‘ یہ حکومت کی نظروں سے نہیں بچ سکتے چناں چہ پھر پولیس کو سڑکوں پر آنے کی کیا ضرورت ہے؟ گائیڈ کا کہنا تھا ہاں البتہ پولیس نے مارکیٹوں میں سفید کپڑوں میں اپنے اہلکار چھوڑ رکھے ہیں‘ یہ عوام کو چھوٹے بڑے فراڈز یا چوری چکاری سے بچاتے ہیں‘ حکومت نے سیاحوں کے پاسپورٹس کو ٹکٹ میں تبدیل کر دیا ہے‘ آپ کسی بھی سیاحتی مقام کا آن لائین ٹکٹ خریدیں‘ آپ کا پاسپورٹ آپ کا ٹکٹ بن جائے گا‘ آپ پاسپورٹ سکین کریں گے اور گیٹ کھلتے چلے جائیں گے‘ ہمیں ائیرپورٹ پر ایک نیا تجربہ بھی ہوا‘ تمام بڑے ائیرپورٹس پر سکرینیں لگی ہیں‘ آپ کسی سکرین کے سامنے کھڑے ہو جائیں کیمرہ آپ کی تصویر لے گا اور سکرین پر آپ کی اگلی فلائیٹ کا نمبر‘ ٹرمینل اور وہاں سے اس کا فاصلہ آ جائے گا‘

چین کی آبادی ڈیڑھ ارب ہے لیکن چوری چکاری کا کوئی تصور نہیں‘ اس کی وجہ ایمان داری نہیں بلکہ سسٹم ہے‘ شہریوں کو معلوم ہے ہم نے اگر چوری کی تو حکومت سے بچ نہیں سکیں گے‘ پولیس ہمیں پاتال سے بھی نکال لے گی‘ شیان میں حلال کھانوں کی دکانوں پر چینی زبان میں سبز رنگ میں حلال لکھا ہوتا ہے‘ ہم چینی زبان نہیں جانتے تھے لیکن ہم سبز رنگ سے اندازہ کر لیتے تھے تاہم تصدیق کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع کر دیتے تھے اور دکان دار جواب میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر کھانے کے حلال ہونے کی تصدیق کر دیتا تھا‘ ہمیں مرکزی مسجد میں چار پاکستانی طالب علم ملے‘ یہ محکمہ زراعت کے ملازمین تھے اور حکومت کے وظیفے پر ٹریننگ کے لیے شیان آئے تھے‘ ان میں لسبیلہ کا نوجوان یوسف بھی تھا‘

ہمیں ان طالب علموں نے بتایا میاں شہباز شریف نے چاروں صوبوں کے 300 زرعی ماہرین کو ٹریننگ کے لیے شیان بھجوایا‘ ان میں سے کچھ زراعت میں ٹریننگ لے رہے ہیں اور کچھ لائیو سٹاک میں‘ یہ پہلا بیچ ہے‘ دوسرا بیچ جولائی میں شیان آئے گا‘کل ہزار پروفیشنلز ٹریننگ لیں گے‘ یہ لوگ حکومت کے اس اقدام پر بہت خوش تھے‘ ان کا کہنا تھا ہماری ٹریننگ سے پاکستان میں زراعت اور لائیوسٹاک میں بہت فرق پڑے گا‘ شیان میں 75 یونیورسٹیاں ہیں‘ جن میں چیائو تھونگ یونیورسٹی (Jiao Tong) 1896ء میں بنی تھی‘ رسول اللہ ﷺ نے اگر فرمایا تھا ’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘ تو یہ غلط نہیں تھا‘ آپؐ جانتے تھے شیان ماضی میں بھی علم کا گڑھ تھا اور یہ مستقبل میں بھی علمی مرکز ہوگا۔

ہم چین کو بدقسمتی سے 1949ء سے دیکھتے ہیں اور افسوس سے کہتے ہیں چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا لیکن یہ کہاں پہنچ گیا اور ہم کہاں پھنس کر رہ گئے‘یہ موازنہ غلط ہے‘ آپ نے اگر چین کو دیکھنا ہے تو پھر آپ کو اسے دیوار چین‘ ٹیراکوٹا وارئیرز‘ شاہراہ ریشم‘ بارود کی قدیم انڈسٹری‘ کاغذ‘ کرنسی نوٹ‘ ہاٹ ائیربیلونز اور ریشم کے کیڑوں سے دیکھنا اورپرکھنا چاہیے‘ چین قدیم زمانے سے کیپٹلسٹ (سرمایہ کار) اور بزنس فرینڈلی ملک ہے‘ یہ لوگ قبل مسیح سے سرمایہ بنانا جانتے ہیں‘ یہ ٹیکنالوجی اور علم میں بھی باقی دنیا سے بہت آگے تھے چناں چہ کام‘ سرمایہ اکٹھا کرنا اور مشکل سے مشکل حالات کا مقابلہ ان کے ڈی این اے میں شامل ہے‘ مستقل مزاجی اور ان تھک کام بھی ان کے اعصاب کا حصہ ہے‘ آپ چینیوں کو کسی کام پر لگا دیں یہ صدیوں تک وہ کام کرتے رہیں گے شاید اس کی وجہ ان کا رنگ ہے‘ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پانچ رنگ کے انسان پیدا کیے ہیں‘ یہ رنگ ان انسانوں کے مزاج کو ظاہر کرتے ہیں‘ سیاہ فام لوگ جسمانی طور پر تگڑے ہوتے ہیں‘ یہ بہت اچھے ملازم اور غلام ثابت ہوتے ہیں‘

سفید فام ذہنی طور پر چست اور چالاک ہوتے ہیں‘ یہ سسٹم بنانے اور چلانے کے ماہر ہوتے ہیں‘دنیا کی زیادہ تر ایجادات بھی سفید فام لوگوں نے کیں اور تحقیق بھی‘ سرخ فام بدمعاش ہوتے ہیں‘ دوسروں پر یلغار کرنا‘ انہیں اپنے گھٹنے کے نیچے رکھنا‘ لمبی جنگیں اور وسائل پر قبضہ ان کی فطرت ہوتی ہے‘آپ امریکیوں کو دیکھ لیں‘ یہ سرخ فام ہیں‘ پیلی رنگت کے لوگ ان تھک ہوتے ہیں‘ یہ کوئی بھی کام پوری زندگی دائیں بائیں دیکھے بغیر کر سکتے ہیں اور پانچ ہم جیسے برائون لوگ‘ ہم لوگ ٹک کر جم کر نہیں بیٹھ سکتے‘ ہم میں مستقل مزاجی نہیں ہوتی‘ ہم ایک کام شروع کریں گے اور اسے ادھورا چھوڑ کر دوسرے کام میں لگ جائیں گے‘ ہم سیدھے بیٹھ سکتے ہیں اور نہ کھڑے ہو سکتے ہیں‘ ہم چند منٹ کے بعد دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیں گے یا میز پر سر ٹکا کر بیٹھ جائیں گے یا پھر ہمیں کام کے دوران پیشاب آ جائے گا اور ہم کام چھوڑ کر واش روم تلاش کرنا شروع کر دیں گے شاید اسی لیے ہم دنیا میں بہت پیچھے ہیں۔
میں اگلے کالم میں آپ کو بیجنگ لے جائوں گا۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



شیان میں آخری دن


شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…

غزوہ ہند

بھارت نریندر مودی کے تکبر کی بہت سزا بھگت رہا…

10مئی2025ء

فرانس کا رافیل طیارہ ساڑھے چار جنریشن فائیٹر…