باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب نے زندگی کے اہم ترین سال واشنگٹن پوسٹ میں رپورٹنگ کرتے گزار دیے‘ واٹر گیٹ سکینڈل اس کی زندگی کی اہم ترین سٹوری تھی‘ یہ نہ صرف رچرڈ نکسن کا سیاسی کیریئر کھا گئی بلکہ اس نے امریکا کی سیاسی اشرافیہ کے کردار پر بھی سوال اٹھا دیے‘ یہ سٹوری باب وڈورڈنے اپنے ساتھی رپورٹر کارل برن سٹین (Carl Bernstein)کے ساتھ مل کر کی تھی اور اس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا‘ باب نے صحافت کے ساتھ ساتھ کتابیں لکھنا شروع کر دیں‘ اس کی اب تک 21 کتابیں آ چکی ہیں جن میں 14 بیسٹ سیلر ہیں اور ان کتابوں نے اسے کروڑ پتی بنا دیا۔2010ء میں امریکا میں ہمارے ایک ملٹری اتاشی ہوتے تھے‘
یہ بعدازاں لیفٹیننٹ جنرل بنے اور پشاور کے کور کمانڈر رہے‘ یہ آج کل بھی ایک اہم پوزیشن پر تعینات ہیں‘ واشنگٹن میں ان کا باب وڈورڈ کے ساتھ رابطہ رہتا تھا‘ کسی میٹنگ کے دوران انہوں نے باب سے وہ پوچھ لیا جو برسوں سے ہم سب امریکی حکمرانوں اور ایک دوسرے سے پوچھتے آ رہے ہیں‘ ان کا سوال تھا’’امریکا پاکستان کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے؟‘‘ میں باب وڈورڈ کے جواب کی طرف آنے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں 2010ء میں بھی پاک امریکا تعلقات میں سردمہری آ چکی تھی اور ہماری آرم ٹویسٹنگ ہو رہی تھی چناں چہ ہمارے ملٹری اتاشی کا سوال بروقت اورا ہم تھا‘ باب وڈورڈ نے دائیں بائیں دیکھا اور ہنس کر جواب دیا ’’جنرل آپ میری تازہ ترین کتاب کا صفحہ نمبر328 پڑھ لیں‘ آپ کو سمجھ آ جائے گی‘‘ ان دنوں باب وڈورڈ کی کتاب ’’اوباماز وارز‘‘ آئی تھی‘ یہ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں صدر اوباما کے کردار سے متعلق تھی اور یہ شائع ہوتے ہی بیسٹ سیلر بن چکی تھی‘ ملٹری اتاشی کے پاس کتاب موجود تھی‘
انہوں نے فوری طور پر صفحہ 328 نکالا‘ یہ صفحہ صدر اوباما اور نائب صدر جوبائیڈن (آج کے صدر) کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو پر مشتمل تھا‘ یہ لمبی گفتگو تھی جس میں نائب صدر جوبائیڈن صدر اوباما سے کہتے ہیں ’’آپ یہ یاد رکھیں ہم نے افغانستان کے ذریعے اپنے اہم ترین مشن مکمل کرنے ہیں یعنی القاعدہ کا خاتمہ اور پاکستان کے جوہری اثاثے‘‘ یہ آگے چل کر مزید کہتے ہیں ’’اور ہم نے یہ دونوں کام الگ الگ کرنے ہیں‘‘ اس کے جواب میں صدر اوباما کہتے ہیں ’’جی ہاں‘ یہ اہم ترین کام خفیہ رہنے چاہییں‘ عوام کو ان کے بارے میں کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہیے‘‘ یہ 441صفحات کی کتاب کا چھوٹا سا ٹکڑا تھا لیکن یہ پاکستان کے بارے میں امریکی عزائم کا ثبوت تھا‘ ملٹری اتاشی نے وہ صفحہ اور اپنی آبزرویشن لکھ کر پاکستان بھجوا دی‘ اس وقت ہو سکتا ہے کسی کو یقین نہ آیا ہو لیکن اگر آج کے حالات دیکھے جائیں تو ہم بڑی آسانی سے امریکی عزائم کو سمجھ سکتے ہیں۔
امریکا کیا چاہتا ہے ہم یہ بحث چند لمحوں کے لیے روکتے ہیں اور پاکستان اور افغانستان کے تازہ ترین تنازع کی بیک گرائونڈ کی طرف آتے ہیں‘ جنرل پرویز مشرف نے جولائی 2007ء میں لال مسجد آپریشن کیا تھا‘ یہ آپریشن اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی بہت بڑی حماقت تھی اور ریاست وقت کے ساتھ ساتھ اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے جنرل مشرف سے یہ حماقت جان بوجھ کر کرائی گئی تھی اور اس کا مقصد پاکستان میں ٹی ٹی پی کی بنیاد رکھنا تھا‘ بہرحال سکیم کے مطابق لال مسجد کا آپریشن ہوا اور اس کے ردعمل میں ٹی ٹی پی بن گئی اور اس نے نہ صرف ملک میں بم دھماکے شروع کر دیے بلکہ کے پی کے مختلف علاقوں میں نفاذ شریعت کے نام پر قبضہ بھی کر لیا‘ ہم آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے ٹی ٹی پی کے عام سے لوگوں کو پاکستان میں تباہی پھیلانے کے لیے ٹیکنالوجی‘ اسلحہ اور پیسہ کون دیتا تھا‘ آپ بھی غور کریں گے تو آپ کو بھی جواب مل جائے گا‘
بہرحال اس سکیم میں آگے چل کر بھارت بھی شامل ہوگیا اور اس نے افغانستان میں قونصل خانوں کے ذریعے پاکستان کو نشانہ بنانا شروع کر دیا‘ تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں انڈیا کا بارود تھیں‘ بھارت نے حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں افغانستان میڈیا پر بھاری سرمایہ کاری کی‘ افغانستان میں 52 ٹیلی ویژن چینلز بنائے گئے اور زہریلے پروپیگنڈے کے ذریعے افغان نوجوان نسل کو یہ باور کرا دیا گیا آپ کے تمام مسائل کا ذمہ دار پاکستان ہے‘
پاکستانی آپ کی لاشیں بیچ کر ڈالر کما رہے ہیں لہٰذا جب تک پاکستان موجود ہے اس وقت تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکے گا‘ یہ بیانیہ آہستہ آہستہ افغانستان کی اس نسل نے قبول کرلیا جس کی آنکھ جنگ میں کھلی تھی اور وہ افغانستان میں امن چاہتی تھی لہٰذا افغانستان میں پاکستان کے خلاف نفرت کی فصل پک کر تیار ہونے لگی اور یہ کام افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومتوں کی موجودگی میں ہوتا رہا‘ بھارت نے دوسری طرف ٹی ٹی پی کو ٹریننگ کیمپس بنا کر دیے اور یہ انہیں مشینری اور بارود بھی فراہم کرنے لگا اور یہ بھی امریکا اور اس کے حمایت یافتہ صدور کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا بہرحال قصہ مزید مختصر2021ء میں امریکا دوسری بار افغانستان کو بے یارومددگار چھوڑ کر چلا گیا‘ پاکستان کی خواہش تھی افغانستان میں کولیشن گورنمنٹ بنے لیکن اشرف غنی اچانک فرار ہو گیا اور افغان فوج تتر بتر ہو گئی اور اس کے نتیجے میں پورے ملک پر طالبان کا قبضہ ہو گیا‘
طالبان ماضی میں پاکستان میں پناہ گزین رہے تھے‘ ان کے بچے‘کاروبار اور جائیدادیں بھی پاکستان میں تھیں لہٰذا ہمارا خیال تھا افغانستان میں اب ٹی ٹی پی اور اس کے کیمپ ختم ہو جائیں گے‘ طالبان نے بھی ہمیں یہ یقین دہانی کرائی تھی مگر نتیجہ اس کے برعکس نکلا‘ کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ امریکا پاکستان میں ایک بڑا اور مضبوط میزائل لانچنگ پیڈ بنانا چاہتا ہے جس کے ذریعے یہ چین‘ روس اور ایران کو کنٹرول کر سکے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ اکتوبر 2022ء سے جنوری 2025ء تک سینٹ کام کے کمانڈر ان چیف جنرل مائیکل ای کوریلا کے پاکستان کے دوروں کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں‘ جنرل مائیکل نے پچھلے تین برسوں میں سب سے زیادہ پاکستان کے دورے کیے‘ کیوں؟ کیا یہاں کوئی جنگ چل رہی تھی؟ دوسرا مقصد اوباماز وار کا صفحہ نمبر 328 ہے یعنی پاکستان کے جوہری اثاثے اور یہ کام افغانستان اور پاکستان کے اندرونی سہولت کاروں کے بغیر ممکن نہیں چناں چہ افغانستان میں پاکستان کی دوست حکومت کے باوجود ٹی ٹی پی بھی سلامت رہی اور اس کے ٹریننگ کیمپ بھی‘ ٹی ٹی پی کے کیمپس تین صوبوں میں قائم ہیں‘
پکتیا جو خالص حقانی نیٹ ورک کا صوبہ ہے اور خوست اور کنڑ‘ یہ تینوں صوبے پاکستانی سرحد پر واقع ہیں اور ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بڑی آسانی سے وہاں سے پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں اور یہ نہ صرف ہوتے رہے بلکہ 2024ء میں انہوں نے پاکستان میں خوف ناک تباہی بھی مچادی‘ آپ یہاں ایک اور حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے‘ امریکا نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن اس کے باوجود طالبان کو امریکا کی طرف سے ہر ہفتے 40 ملین ڈالر ملتے ہیں‘ یہ رقم ماہانہ 160 ملین ڈالر بنتی ہے‘ امریکا نے اگست 2021ء سے اگست 2023ء تک افغانستان کو دو اعشاریہ 6 بلین ڈالر امداد دی جب کہ یہ 2021ء سے 2024ء تک افغانستان پر 21 بلین ڈالر خرچ کر چکا ہے‘ یوں امریکا اس وقت بھی افغانستان کا سب سے بڑا ڈونر ہے اور آپ اس کی تصدیق گوگل تک سے کر سکتے ہیں‘ دوسری طرف بھارت ٹی ٹی پی کی مدد کر رہا ہے‘ آپ اب یہاں ایک اور حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے‘ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور میں دل سے عمران خان کو محب وطن سمجھتا ہوں لیکن سوال یہ ہے عمران خان 2011ء سے پاکستان میں بڑی بڑی ریلیز‘ جلوس اور جلسے کر رہے ہیں‘ ان 13 برسوں میں ٹی ٹی پی نے ملک کی ہر سیاسی جماعت اور قیادت پر حملے کیے‘ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا‘ اس سے قبل کراچی میں کارساز کے علاقے میں بم دھماکوں میں 180ورکرز شہید کر دیے گئے‘
بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کو آج بھی تھریٹس ہیں‘ پشتون ٹی ٹی پی نے پشتونوں کی سب سے بڑی اور پرانی جماعت اے این پی کو مکمل طور پر تباہ کر دیا‘ مولانا فضل الرحمان طالبان کے استاد ہیں‘ یہ ان کے مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے رہے لیکن اس کے باوجود ٹی ٹی پی نے انہیں 2024ء میں الیکشن کمپیئن نہیں کرنے دی اور ن لیگ بھی آج تک کھل کر کے پی میں الیکشن نہیں لڑ سکی لیکن ٹی ٹی پی نے پی ٹی آئی کے کسی جلسے اور جلوس کو نشانہ بنایا اور نہ دھمکی دی‘ کیوں؟ سوال یہ ہے اگر عمران خان پاکستان اور پاکستانی نیوکلیئر پلانٹ کے محافظ ہیں تو پھر یہ ٹی ٹی پی کے سب سے بڑے ٹارگٹ ہونے چاہیے تھے لیکن یہ کیوں نہیں ہیں؟ میں عمران خان کی ذات پر شک نہیں کر رہا لیکن ہو سکتا ہے یہ نادانستگی میں پاکستان کی مخالف طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہوں۔
ہم اب آج کے حالات کی طرف آتے ہیں‘ افغانستان میں ٹی ٹی پی پاکستان کے بارڈر پر بیٹھی ہے‘ اس کا صرف ایک ٹارگٹ ہے اور وہ ہے پاک فوج‘ یہ ہر اس مقام کو تباہ اور برباد کرنا چاہتی ہے جہاں پاکستان کا جھنڈا لگا ہے یا یونیفارم نظر آتی ہے‘ 2014ء سے لے کر 2024ء تک سوشل میڈیا کے ذریعے عوام اور فوج کے درمیان دوریاں بھی پیدا کر دی گئی ہیں‘ عوام بالخصوص پی ٹی آئی کے کارکنوں کے دلوں میں یہ بٹھا دیا گیا ہے پاک فوج ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی سب سے بڑی دشمن ہے اور عمران خان کو اس نفرت کا لیڈر بنا دیا گیا‘ اس کمپیئن اور کوشش کا صرف ایک مقصد ہے دنیا کی واحد اسلامی جوہری طاقت کو ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنا اور اگر خدانخواستہ ایک بار یہ ہو گیا تو پھر پاکستان کو بدقسمتی سے عراق‘ لیبیا‘ شام اور یمن بنتے دیر نہیں لگے گی لہٰذا یقین کریں نشانہ صرف پاکستان ہے باقی سب بہانے ہیں اور یہ حقیقت باب وڈورڈ نے 2010ء میں صفحہ 328 پر لکھ دی تھی‘ کاش عمران خان بھی یہ کتاب پڑھ لیں‘ شاید اسی سے انہیں پلان سمجھ آ جائے۔