ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ تھی‘ یہ فلائیٹ بھی دروازے تک پیک تھی‘ ہم نے مالگا سے غرناطہ جانا تھا‘ مالگا سپین کے صوبے اندلس کا ائیرپورٹ سٹی ہے‘ یہ شہر 711ء میں مورش مسلمان نے آباد کیا تھا اور ان کے زمانے میں یہ مالقا کہلاتا تھا‘ سپین میں اسلام اور مسلمانوں کو711ء میں طارق بن زیاد لے کر آیا ‘ بعدازاں 750ء میں شام میں بنوامیہ کے زوال کے بعد اموی شہزادہ عبدالرحمن اول جان بچاتا ہوا اندلس پہنچا‘ قرطبہ شہر آباد کیا اور یورپ میں مسلم ریاست کی بنیاد رکھ دی‘ بعدازاں1492ء تک ساڑھے سات سو سال فرانس کے شہر طلوس اور سپین کے شہر بارسلونا تک مسلمانوں کی حکومت رہی‘آج کا پرتگال بھی اس ریاست کا حصہ تھا‘ اس زمانے میں قرطبہ‘ اشبیلا (آج سویا) اور غرناطہ مسلمانوں کے بڑے اور جدید شہر ہوتے تھے‘
میڈرڈ بھی مسلمانوں نے آباد کیا تھا‘ اس کا عربی نام میدرد تھا‘ سپین کے لوگ آج بھی اسے میدرد کہتے ہیں‘ مورسیا شہر میں بھی مسلمان آباد تھے‘ ابن عربیؒ کی پیدائش مورسیا میں ہوئی تھی‘ قرطبہ اپنے زمانے کا جدید ترین شہر تھا‘ اس شہر نے دنیا کو ٹائی اور سوٹ بھی دیا‘ سوپ بھی‘ پیراشوٹ بھی اور کرسٹل کے برتنوں کی صنعت بھی‘ ان تمام ایجادات کے پیچھے زریاب قرطبی کا جینئس دماغ تھا‘ یہ خلیفہ کے دربار سے وابستہ تھا‘ اس نے شاہی ملازمین کے لیے سوٹ اور ٹائی ایجاد کی‘ بادشاہ کے لیے سوپ بنوایا اور اسے ڈنر کے لیے لازم قرار دے دیا اور اس نے پوری دنیا سے شیشے کے ماہر کاری گر قرطبہ جمع کیے اور ان سے کرسٹل کے برتن بنوائے‘ وہ سمجھتا تھا انسان اپنے بازوئوں کے ساتھ پر باندھ کر آسانی سے اڑ سکتا ہے چناں چہ اس نے پیرا شوٹ بنوائے اور لوگوں کو پہنا کر انہیں میناروں سے نیچے پھینک دیا اور لوگ بحفاظت نیچے اتر آئے‘ یہ پیرا شوٹ کی ابتدا تھی‘ شاید یہ زریاب قرطبی کی روایت کا احترام ہے کہ آج یورپ میں سب سے زیادہ پیرا گلائیڈنگ قرطبہ اور غرناطہ میں ہوتی ہے‘ مسلمانوں نے شام‘ مراکو اور سپین کا آرکی ٹیکچر ملا کر نئے انداز تعمیر کی بنیاد بھی رکھی‘ یہ طرز تعمیر مورش کہلاتا ہے‘ یورپ کے عیسائی اس زمانے کے مسلمانوں کو مور کہتے تھے‘ اس کی وجہ بہت دل چسپ تھی‘
اس زمانے میں مراکو‘ تیونس‘ الجزائر ‘ مالی‘ نائیجراورلیبیامل کر ایک ملک تھا اور وہ موریطانیہ کہلاتا تھا‘ موریطانیہ کے لوگوں کو مور کہا جاتا تھا‘ یہ لوگ کیوں کہ فیض‘ طنجہ اور تیونس سے آئے تھے اور ان کی اکثریت بربر اور عربیوں پر مشتمل تھی چناں چہ مقامی لوگ انہیں مور کہنے لگے ‘ ان موروںنے بعدازاں یورپ میں موریش طرز تعمیر متعارف کرایا‘اس زمانے میں شہروں کی گلیاں پکی ہوتی تھیں‘پتھر اور چونے کا کام زیادہ کیا جاتا تھا‘ گھروں کی بیرونی دیواریں سپاٹ اور ٹھوس ہوتی تھیں اور ان کا رنگ مٹیالہ ہوتا تھا‘ گھر کی کوئی کھڑکی گلی کی طرف نہیں کھلتی تھی‘تمام دروازے اور کھڑکیاں صحن میں کھلتی تھیں‘ دروازے لکڑی کے ہوتے تھے یالوہے سے بنتے تھے‘یہ گھر باہر سے سادے اور عاجز محسوس ہوتے تھے‘ آپ جوں ہی گھر میں داخل ہوتے تھے تو آپ کا جی خوش ہو جاتا تھا‘
صحن میں سنگ مرمر کا فوارہ ہوتا تھا‘ اس کے دائیں بائیں مالٹے کے درخت‘ انگور کی بیلیں اور بوگن بیل ہوتی تھی اور ان کے درمیان تخت اور میزیں لگی ہوتی تھیں‘ ہر گھر کے صحن میں پانی کی آواز اور مالٹے کے پھولوں اور پھلوں کی خوشبو ہوتی تھی‘ یہ طرز تعمیر مراکو میں آج بھی زندہ ہے‘ مراکشی لوگ ایسے گھروں کو ریاد کہتے ہیں‘ سویا‘ قرطبہ اور غرناطہ میں ہزاروں ریاد ہیں اور ہر گھر آپ کا دل کھینچ لیتا ہے‘ مسلمانوں کے دور میں سویا مسلمانوں کا علمی‘ قرطبہ روحانی اور غرناطہ فنی مرکز ہوتا تھا‘ سویا میں دنیا کی سب سے بڑی کتابوں کی منڈی لگتی تھی اور باقاعدہ بولی دے کر کتابیں خریدی اور بیچی جاتی تھیں‘ ایک وقت میں شہر میں ڈیڑھ لاکھ کتابیں تھیں اور یہ سب قلمی نسخے تھے‘ قرطبہ کی مسجد اپنی طرز تعمیر سے دنیا بھر کی مسجدوں کو شرما دیتی تھی جب کہ مدارس میں ابن رشد اور ابن عربی جیسے مشاہیر درس وتدریس کرتے تھے جب کہ غرناطہ کا الحمراء اور گلیاں پورے عالم کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیتی تھیں۔
ہم نے کرسمس کی رات اور دسمبر کا آخری ہفتہ غرناطہ میں گزارنے کا فیصلہ کیا اور یوں 24 دسمبر کی شام مالگا پہنچ گئے‘ مالگا ائیرپورٹ درمیانے سائز کا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر 42 کنوینئر بیلٹس ہیں‘ آپ اس سے ائیرپورٹ کی مصروفیت کا اندازہ کر لیجیے جب کہ ہمارے اسلام آباد ائیرپورٹ پر صرف سات کنوینئر بیلٹس ہیں‘ آپ دونوں کا فرق خود دیکھ لیجیے‘ ہمیں سہیل مقصود لینے آئے تھے‘ یہ میرے عزیز دوست اور سکھ دکھ کے ساتھی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت کرم کیا‘ انہوں نے بیس سال قبل غرناطہ میں چھوٹی سی دکان کھولی اور یہ اب پھیل کر بہت بڑی کیش اینڈ کیری بن چکی ہے‘ یہ آج غرناطہ کے خوش حال ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں‘ بہت سادہ لیکن انتہائی مخلص انسان ہیں‘ ان کے بچے پنجابی اور سپینش صرف دو زبانیں جانتے ہیں‘ بالخصوص بچیوں کی زبان خالصتاً دیہاتی پنجابی ہے‘ یہ جب ’’پاپا ایدھر آئو‘‘ کہتی ہیں تو دل خوش ہو جاتا ہے‘ مالگا سے غرناطہ ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ میں چھ مرتبہ یہ شہر دیکھ چکا ہوں لیکن اس میں کوئی ایسا جادو ہے جس کی وجہ سے تسکین نہیں ہوتی اور انسان بار بار غرناطہ کا چکر لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے‘ ہمارا ہوٹل سٹی سنٹر کے قریب تھا‘
سیدھی گلی ٹھیک اس جگہ جاتی تھی جہاں دو جنوری 1492ء کو آخری مسلمان بادشاہ ابومحمد عبداللہ نے الحمراء کی چابیاں عیسائیوں کے بادشاہ فرڈی نینڈ اور ملکہ ازابیلا کے حوالے کی تھیں‘ اس جگہ اب ایک فوارہ نما مانو منٹ بنا ہے جس میں غالباً کولمبس ملکہ کو امریکا کے بارے میں تفصیل سمجھا اور دکھا رہا ہے جب کہ چابیوں کے واقعے کی تصویری تفصیل ایک پینٹنگ میں دکھائی گئی ہے‘ یہ پینٹنگ ’’رائل چیپل آف گریناڈا‘‘ کے اینٹری ہال میں لگی ہے‘ پینٹنگ میں ابو عبداللہ محمد سیاہ گائون میں ملبوس سیاہ گھوڑے پر سوار ہے‘ اس کے گلے میں سفید چادر لپٹی ہوئی ہے‘ ہاتھ میں چابیاں ہیں جب کہ اس کے پیچھے اس کے ملازمین اور درباری مغموم کھڑے ہیں‘ دوسری طرف فرڈی نینڈ سیاہ جب کہ ملکہ ازابیلا سفید گھوڑے پر بیٹھ کر غرور سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ان کے فاتحانہ جذبے میں لتھڑے مصاحب پیچھے کھڑے ہو کر نخوت سے ہارے ہوئے لشکر کو دیکھ رہے ہیں‘پینٹنگ میں الحمراء کے ستون‘ واچ ٹاورز اور برجیاں مفتوحہ سلطان کے پیچھے نظر آ رہی ہیں‘ یہ پینٹنگ کرسٹوفر کولمبس کے خطوط اور ڈائریاں پڑھ کر بنائی گئی تھیں‘کولمبس چابیوں کی تبدیلی اور غرناطہ کی فتح کا عینی شاہد تھا‘
وہ ملکہ سے امداد کے لیے آیا تھا‘ اس کا خیال تھا وہ ہندوستان کا مختصر ترین راستہ دریافت کر سکتا ہے جب کہ ملکہ کو ہندوستان کے نئے راستے میں کوئی دل چسپی نہیں تھی‘ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش غرناطہ کی فتح‘ سپین سے مسلمانوں کی مکمل بے دخلی اور الحمراء کے لائنز کورٹ میں چند منٹ کی چہل قدمی تھی‘ اس نے کولمبس کو ٹالنے کی بے شمار کوششیں کیں مگر جب وہ باز نہ آیا تو ملکہ نے تنگ آ کر شرط رکھ دی اگر غرناطہ فتح ہو گیا تو میں تمہیں انڈیا کے نئے راستے کے لیے فنانس کر دوں گی‘ کولمبس کے پاس شرط ماننے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا چناں چہ وہ ملکہ کے لشکر کے ساتھ نتھی ہو گیا اور اس نے اپنی آنکھوں سے ابوعبداللہ محمد کو الحمراء کی چابیاں ملکہ کے حوالے کرتے دیکھا‘ ملکیت کی اس تبدیلی کے بعد کولمبس آگے بڑھا‘ ملکہ کے گھوڑے کی نعل کو بوسا دیا اور اسے اس کا وعدہ یاد کرا دیا‘ ملکہ اس لمحے اس قدر خوش تھی کہ اس نے سونے کی دو تھیلیاں کولمبس کی طرف اچھال دیں‘
اس لمحے دونوں یہ نہیں جانتے تھے ان دو تھیلیوں کی مدد سے نئی دنیا دریافت ہو گی اور صرف چار سو سال بعد وہ دنیا امریکا کے نام سے پرانی دنیا پر حکمرانی کرے گی‘ بہرحال قصہ مختصر مصورفرانسسکوپراڈیلا نے 1882ء میں کولمبس کے خطوط اور تحریروں کی مدد سے اس واقعے کی پینٹنگ بنائی اور کمال کر دیا‘ فرڈی نینڈ اس زمانے کی عیسائی ریاست آرگان اور ازابیلا کاسٹیا کی حکمران تھی‘ ان دونوں نے غرناطہ فتح کرنے کے لیے شادی کی‘دونوں ملکوں کے لشکر اکٹھے کیے اور غرناطہ کا محاصرہ کر لیا‘ غرناطہ کی فتح ان کی زندگی کی اتنی بڑی اچیومنٹ تھی کہ دونوں نے مرنے کے بعد غرناطہ میں دفن ہونے کا اعلان کر دیا‘ اس کے لیے انہوں نے غرناطہ میں رائل چیپل آف غرناطہ کے نام سے ایک بہت بڑا چرچ بنوایا‘ یہ چرچ فتح کی یادگار کے قریب واقع ہے اور واقعی دیکھنے لائق ہے‘ فرڈی نینڈ اور ملکہ ازابیلا دونوں اس چرچ میں مدفون ہیں‘ قبریں زیر زمین تہہ خانے میں ہیں جب کہ قبروں کا تعویز اوپر ہے اور یہ انتہائی خوبصورت ہے تاہم سیڑھی کے ذریعے قبر میں اتر کر بادشاہ اور ملکہ کی قبریں دیکھی جا سکتی ہیں۔