ملزم پ کا جواب تھا ’’میں راجہ سے ہر قیمت پر بدلہ لینا چاہتا تھا اور میں نے لے لیا‘‘ دوسرے ملزم سے بھی پوچھا گیا‘ یہ اپنے فعل پر شرمندہ تھا اور اس کا کہنا تھا ’’مجھے اندازہ نہیں تھا میری غلطی کااتنا خوف ناک نتیجہ نکلے گا‘ میرا خیال تھا لوگ صرف عمیر عرف راجہ کو پکڑ لیں گے اور یوں میرا اور پ کا بدلہ پورا ہو جائے گا مگر لوگوں نے مسیحیوں کے گھر بھی جلا دیے اور ہمارے چرچ بھی‘‘ اس نے اپنی پھوپھی کے داماد کی مداخلت اور امدادی رقوم بھی تسلیم کر لیں۔
دونوں ملزموں سے پوچھا گیا ’’تم نے توہین آمیز مواد ان دو گھروں کے سامنے کیوں رکھا تھا؟تو ان کا جواب تھا ہم جانتے تھے یہ بااثر لوگ ہیں‘ یہ جب لوگوں کو بتائیں گے تو پورا شہر ان کے پیچھے کھڑا ہو جائے گا اور پولیس راجہ کو بچا نہیں سکے گی‘‘ ان سے پوچھا گیا ’’لیکن اس معاملے میں راجہ کے دوسرے بھائی عمر مسیح اور والد کا کیا قصور تھا‘ تم نے ان دونوں کو ساتھ کیوں شامل کیا؟ ان کا جواب تھا ہم پورے خاندان کو ختم کرنا چاہتے تھے تاکہ کل کو کوئی ہم سے بدلہ نہ لے سکے‘‘۔
ہم اب مسلمانوں کے ردعمل کی طرف آتے ہیں‘ میں پچھلی سطروں میں بتا چکا ہوں عیسائی آبادی کے گھروں اور چرچز پر ایک ہی پیٹرن میں حملہ ہوا تھا‘ کیا یہ محض اتفاق تھا؟ جی نہیں‘ یہ اتفاق نہیں تھا‘ جڑانوالہ میں دو مذہبی سیاسی جماعتوں کا غلبہ ہے‘ ان کے ہزاروں کارکن ہیں اور یہ سب واٹس ایپ گروپس سے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں‘ یہ دونوں تنظیمیں ایک دوسرے کی مخالف ہیں مگر یہ مشترکہ ایشوز پر ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتی ہیں۔
16اگست کو بھی یہی ہوا‘ قرآن مجید کے شہید اوراق ملتے ہی دونوں نے یہ ایشو واٹس ایپ گروپوں میں ڈال دیا اور یوں چند منٹوں میں یہ خبر پورے فیصل آباد ڈویژن میں پھیل گئی‘ یہ اس کے بعد اپنے کارکنوں کی رہنمائی بھی کرنے لگے‘ کارکنوں کو گروپوں کے ذریعے بتایا جاتا تھا آپ نے گھر سے تیل اور پٹرول لے کر نکلنا ہے۔
آپ کے ہاتھوں میں ڈنڈے‘ گینتیاں‘ ہتھوڑے اور راڈز ہونے چاہییں‘ آپ نے کس راستے سے کہاں آنا ہے اور کس عمارت پر حملہ کرنا ہے‘ یہ انفارمیشن اور ہدایات چند منٹوں میں پورے علاقے میں پھیل گئیں اور اس کے نتیجے میں پورے فیصل آباد ریجن سے لوگ ٹرکوں‘ ویگنوں اور ٹرالیوں میں جڑانوالہ آتے گئے اور مسیحی برادری کے گھر اور چرچ جلاتے گئے اور پھر واپس نکل گئے‘ پولیس انھیں روکنے کی کوشش کرتی رہی مگر ہجوم زیادہ اور روکنے والے کم تھے چناں چہ جڑانوالہ جلتا رہا اور پوری دنیا اس کا تماشا دیکھتی رہی‘ میں یہاں پولیس کے تین اہم اقدامات کی تعریف کروں گا۔
پہلا قدم‘ پولیس نے بروقت علاقہ خالی کرا کر جانیں بچا لیں‘ اس سانحے میں کسی کی جان گئی اور نہ کوئی زخمی ہوا‘ دوسرا‘ پولیس ایک ہفتے میں تحقیقات مکمل کر کے اصل پلان اور اصل ملزموں تک پہنچ گئی اور تین‘ پولیس نے دو ہفتوں میں علاقے میں بھائی چارہ اور رواداری پیدا کر دی۔
یہ علماء کرام کو چرچز میں لے گئی اور پادریوں کو مسجدوں میں اور دونوں نے ایک دوسرے کی عبادت گاہوں میں کھڑے ہو کر امن اور بھائی چارے کا پیغام دیا‘ اس کے نتیجے میںچند دنوں میں حالات بھی معمول پر آگئے اور مذہبی رواداری بھی پیدا ہو گئی لیکن سوال یہ ہے کیا اس ایشو کا کوئی مستقل حل موجود ہے؟ جی ہاں ہے اور ہمیں اب اس طرف آنا ہوگا۔
ہم مسلمان سب سے پہلے یہ بات پلے باندھ لیں دنیا کی کوئی طاقت ہمارے خدا‘ ہمارے قرآن مجید اور ہمارے رسولؐ کی توہین نہیں کر سکتی‘ یہ تینوں تمام تر جسارتوں اور توہین سے بالاتر ہیں‘ دوسرا اگر کوئی بدبخت یہ حرکت کرتا بھی ہے تو ہمیں فوراً اشتعال میں نہیں آنا چاہیے‘ ہمیں سب سے پہلے توہین کی وجہ دریافت کرنی چاہیے۔
عین ممکن ہے جڑانوالہ کے پ کی طرح اس جسارت کا مقصد کسی سے بدلہ لینا یا پھر ملک میں افراتفری پھیلانا ہو‘ دوسرا یہ بھی عین ممکن ہے یہ جسارت کسی فاتر العقل یا پاگل شخص نے کی ہو اور اسلام میں پاگلوں پر کوئی حد نہیں لگتی لہٰذا ہمیں یہ بھی تحقیق کر لینی چاہیے کہ جسارت کرنے والا شخص پاگل یا فاترالعقل تو نہیں اور کہیں اس کا مقصد معاشرے میں انتشار پھیلانا یا کسی سے بدلہ لینا تو نہیں؟ تیسرا ہم ایک ریاست اور معاشرے میں رہ رہے ہیں۔
اس معاشرے کے اپنے قوانین اور ضابطے ہیں‘ بحیثیت شہری ہمیں ان ضابطوں اور قوانین کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے‘ ہمیں چاہیے ہم پولیس اور علماء کرام سے رابطہ کریں اور یہ معاملہ ان پر چھوڑ دیں اگر علماء اور پولیس اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں گستاخی کرنے والا شخص واقعی گستاخ ہے تو پھر اسے قانون کے مطابق سزا مل جائے گی اور اگر اس شخص کو بے گناہ قرار دیتے ہیں تو پھر ہمیں ان کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔
ہمیں بہرحال فسادی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے‘ چار‘ کسی ایک شخص کے جرم کی سزا اس کے پورے خاندان‘ قبیلے یا کمیونٹی کو دینا انسانیت نہیں ہے‘ کسی ایک شخص کی جسارت‘ گستاخی یا سازش کے بعد پوری کمیونٹی کے گھر جلانا کہاں کا اسلام‘کہاں کا انصاف اور کہاں کی دانش مندی ہے؟ اور پانچ‘ کسی شخص کے انفرادی فعل کے بعد ان کے گھروں یا عبادت گاہوں پر حملوں کی کیا تُک بنتی ہے‘ اس میں چرچز‘ مندروں‘ ٹمپلز اور جماعت خانوں کا کیا قصور ہے‘ہم انھیں کس چیز کی سزا دیتے ہیں؟ یہ تمام نقاط عام لوگوں کے لیے تھے‘ ہم اب حکومت کی طرف آتے ہیں۔
پاکستان میں 75 برسوں سے مذہبی فسادات ہو رہے ہیں لہٰذا ریاست کو اب تک ان کی نوعیت بھی سمجھ جانی چاہیے تھی اور ان سے نبٹنے کا طریقہ بھی سیکھ لینا چاہیے تھا لیکن ہم نے یہ نہیں کیا‘ چلیں ماضی پر مٹی ڈالیں مگر ہمیں اب توایس او پیز بنا لینے چاہییں اور اس مسئلے کا کوئی ٹھوس حل بھی نکال لینا چاہیے‘ میری دانست میں پہلا حل مکس سوسائٹی ہے‘ ہم نے بدقسمتی سے ملک کو چھوٹی چھوٹی پاکٹس میں تقسیم کر دیا ہے۔
کراچی جیسے شہر میں بھی مہاجروں‘ سندھیوں‘ پٹھانوں‘ بلوچیوں اور میمنوں کے علاقے الگ الگ ہیں‘ پورے ملک میں ہندو‘ سکھ اور عیسائی الگ الگ محلوں میں رہتے ہیں اور یہ پاکٹس فساد کی اصل جڑ ہیں‘ ان پاکٹس میں کوئی ایک شرپسند افواہ پھیلاتا ہے اور پورا علاقہ تحقیق کے بغیرتلواریں لے کر نکل کھڑا ہوتا ہے‘ ہم جب تک پاکستانیوں کو آپس میں مکس نہیں کریں گے عوام اس وقت تک ایک دوسرے کو نہیں سمجھیں گے اور درمیان سے نفرت اور دوری کی دیواریں بھی ختم نہیں ہوں گی‘ اس چیز کا ادراک لی کوآن یو نے سنگا پور میں 50 سال قبل کیا تھا۔
لہٰذا اس نے عمارتی بلاکس میں مختلف مذاہب اور قومیتوں کے کوٹے رکھ دیے‘ اس کا یہ فائدہ ہوا ہر بلاک میں چینی‘ ملائی‘ بودھ‘ ہندو اور مسلمان اکٹھے رہ رہے ہیں‘نتیجتاً وہاں کسی قسم کا کوئی فساد نہیں‘ ہماری حکومت کوبھی چاہیے یہ کوئی ایسی پالیسی بنائے جس کے نتیجے میں لوگ پاکٹس کے بجائے مکس ہو کر رہیں۔
اس سے نفرت اور دوریاں دونوں ختم ہو جائیں گی‘ دوسرا حکومت ملک میں بین المذاہب کمیٹیاں بنا دے‘ یہ کمیٹیاں مستقل ہوں اور جب بھی نفرت‘ جسارت یا توہین کا کوئی واقعہ پیش آئے تو یہ ایشو سب سے پہلے اس کمیٹی کے پاس جائے‘ کمیٹی تحقیقات کرے اور اگر معاملہ جھوٹا نکلے تو یہ باقاعدہ اعلان کرے اور اگر واقعہ سچا ہو تو یہ ملزم کو فوری طور پر پولیس کے حوالے کر دے اور پولیس ضابطے کی کارروائی شروع کر دے مگر کسی بھی صورت میں عوام جمع ہوں گے اور نہ کسی پر حملہ کیا جائے گا۔
تیسرا پاکستان میں ماضی میں پولیس کے مخبر ہوا کرتے تھے‘ یہ محلوں اور گلیوں میں پنپنے والی ایک ایک سازش کی اطلاع پولیس کو دیتے تھے‘ یہ سلسلہ بعدازاں ختم ہو گیا‘ میرا مشورہ ہے حکومت فوری طور پر اسے بحال کر دے‘ یہ حساس علاقوں کو گرین‘ ییلو‘ اور ریڈ تین رنگوں میں تقسیم کردے اور ان میں اپنے مخبر چھوڑ دے‘ مخبر باقاعدہ ملازم ہوں اور یہ ان لوگوں میں رہ کر اندر کی صورت حال کی اطلاع دیتے رہیں اور ریاست ان مخبریوں کی بنیاد پر حادثوں اور سانحوں سے قبل ملزموں تک پہنچ جائے۔
چوتھا‘ حکومت ایک ہی بار دل بڑا کر کے تمام مساجد کا چارج اپنے ہاتھ میں لے لے‘ یہ امام اور موذن باقاعدہ بھرتی کر کے مساجد میں تعینات کرے اور انھیں شان دار تنخواہیں دے تاکہ یہ لوگ ریاست کی نظروں میں بھی رہیں اور انھیں ہاتھ بھی نہ پھیلانا پڑے‘ مجھے معلوم ہے اس تجویز کے جواب میں حکومت ابتر معاشی صورت حال کا رونا روئے گی لیکن اس کا حل بھی موجود ہے‘ حکومت اس کے لیے مسجد فنڈ کا اعلان کر دے‘ مخیر حضرات اس فنڈ میں رقوم جمع کرا دیا کریں اور ان رقوم سے مسجدوں کی دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کا کام بھی ہوتا رہے اور عملے کی تنخواہیں بھی نکلتی رہیں‘ حکومت یہ ذمے داری مذہبی این جی اوز کو بھی سونپ سکتی ہے۔
تاہم امام اور موذن کا تقرر بہرحال حکومت کرے اور خطبہ اور تقریروں کا مواد بھی یہ اماموں کو بھجوائے اور آخری تجویز خدا کے لیے مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دے دیں اور لوگوں کے مذہبی عقائد پر تنقید کو قابل سزا جرم بنا دیں تاکہ لوگ سنبھل کر گفتگو کیا کریں‘ لوگ لوگوں کے عقائد پر تنقید نہ کرسکیں۔
اس سے بھی انتشار میں کمی آئے گی اور میرا ذاتی خیال ہے ہم نے اگر اس صورت حال کو ابھی سے کنٹرول نہ کیا تو تقسیم در تقسیم معاشرہ کسی بھی وقت ایٹمی ری ایکٹر ثابت ہو گا اور یہ ریاست کا سارا اسٹرکچر اڑا دے گا۔