قصہ ساڑھے آٹھ ملین ڈالر کا

4  اپریل‬‮  2023

2018ء میں میاں نواز شریف پر مقدمے چل رہے تھے‘ شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے‘ عمران خان کو وزیراعظم بنانے کی تیاریاں عروج پر تھیں اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی پروفائلنگ کے لیے ملک بھر کے بزنس مینوں‘ صحافیوں اور سیاست دنوں سے ملاقات کر رہی تھی‘ میں بھی ایک ایسی ملاقات میں شریک تھا جس میں ملک کی ایک اہم شخصیت نے انکشاف کیا‘

میاں نواز شریف نے 1994ء میں پانچ ملین ڈالر ملک سے باہر بھجوائے تھے‘ یہ رقم ڈائیوو کمپنی نے موٹروے کے ٹھیکے میں بطور رشوت دی تھی‘ میاں صاحب نے اس رقم میں سے ساڑھے تین ملین ڈ الر عزت بیگوچ کو بھجواکر بوسنیا کی سول وار میں کنٹری بیوٹ کیا تھا جب کہ باقی رقم سے لندن میں فلیٹس خریدے گئے تھے‘ مجھے بتایا گیاعزت بیگوچ کو یہ رقم شاہد خاقان عباسی دے کر آئے تھے‘ لندن کے فلیٹس بھی انہوں نے خرید کر دیے تھے اور ڈائیوو کمپنی کے مالک کم وو چونگ سے رقم بھی عباسی صاحب نے لے کر دی تھی کیوں کہ مالک کا بیٹا امریکا میں عباسی صاحب کا کلاس فیلو تھا‘ یہ بات میرے لیے حیران کن تھی‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ اعلیٰ ترین منصب سے بتائی گئی تھی اور اس میں دو وزیراعظم ملوث تھے‘ میاں نواز شریف مقدمات کا سامنا کر رہے تھے جب کہ شاہد خاقان عباسی اس وقت وزیراعظم تھے‘ یہ انفارمیشن میرے ذہن میں گانٹھ بن کر رہ گئی‘ عمران خان نے بھی ایک آدھ میٹنگ میں اس کا ذکر کیا‘ بہرحال چند دن قبل میں نے اس کا ذکر شاہد خاقان عباسی سے کیا تو انہوں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا’’انفارمیشن ٹھیک ہے لیکن بات غلط ہے‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ یہ بولے ’’ہم نے عزت بیگوچ کو واقعی رقم دی تھی‘ میاں صاحب کو فلیٹس کا مشورہ بھی میں نے دیا تھا اور ڈائیوو کمپنی کے مالک کا بیٹا نہیں بیٹی میری کلاس فیلو تھی مگر یہ الزام سو فیصد غلط ہے‘‘ میں نے ان سے تفصیلات جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا‘ یہ بات کافی یا لنچ پر ہو سکتی ہے‘ میری ان کے ساتھ کافی پر ملاقات طے ہو گئی اور ہم نے تین گھنٹے بلیو ایریا کی ایک کافی شاپ میں گفتگو کی۔

میرا پہلا سوال عزت بیگوچ کے ساڑھے تین ملین ڈالرز سے متعلق تھا‘ یہ ہنس کر بولے ’’آپ کو بتانے والوں نے غلط بتایا تھا‘ یہ رقم ساڑھے تین ملین ڈالر نہیں ساڑھے آٹھ ملین ڈالر تھی اور یہ میں نے نواز شریف کے ساتھ بوسنیا جا کر عزت بیگوچ کو دی تھی‘‘ یہ رکے اور پھر بولے ’’بوسنیا میں 1992ء میں جنگ شروع ہوئی‘ سربیا کے صدر سولبودن ملاسوچ نے بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا‘ ہم لوگ اس وقت اپوزیشن میں تھے‘ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی‘

مجھے ایک دن سرتاج عزیز نے بلایا اور کہا بڑے میاں صاحب (میاں محمد شریف) اور ان کے دوستوں نے بوسنیا کے مسلمانوں کے لیے رقم جمع کی ہے‘ یہ چاہتے ہیں آپ یہ رقم عزت بیگوچ کو پہنچادیں‘ میں نے حامی بھر لی‘ میاں شریف سے ملاقات ہوئی اور مجھے انہوں نے ساڑھے آٹھ ملین ڈالر کا کیشیئر چیک دے دیا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ چیک کس بینک کا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یہ ابوظہبی کے کسی بینک کا تھا اور کیشیئر چیک تھا‘ اس سے کوئی بھی بینک سے کیش لے سکتا تھا‘ میں نے لفتھانسہ ائیر لائین کی سیٹ بک کرا لی‘

میں رخصت ہونے لگا تو میاں شریف کا پیغام آیا نواز شریف بھی آپ کے ساتھ جائیں گے اور یہ آپ کو فرینکفرٹ میں ملیں گے‘ بہرحال قصہ مختصر میں فرینکفرٹ پہنچا اور ائیرپورٹ پر میاں نواز شریف نے بھی ہمیں جوائن کر لیا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کتنے لوگ تھے؟‘‘ یہ بولے ’’ہم چار تھے‘ میاں صاحب‘ میں‘ خیام قیصر اور نادر چودھری‘ ہم فرینکفرٹ سے زیگرب پہنچے‘ ائیرپورٹ ویران اور جنگ زدہ تھا‘ ہم بڑی مشکل سے شہر آئے اور ہوٹل میں چار کمرے لیے‘

ہمارے علاوہ پورا ہوٹل خالی تھا‘ ریستوران اور کافی شاپس بند تھیں‘ ہم حلال کھانا تلاش کرتے ہوئے اسلامک سنٹر پہنچے‘ ہمیں وہاں 80 ڈالر میں ایک مرغی ملی‘ ہم چاروں نے بڑی مشکل سے پیٹ بھرا‘ہم کھانا کھا رہے تھے تو ہمیں مسجد کے نیچے اچانک میوزک کی آواز آنے لگی‘ امام صاحب سے ان آوازوں کے بارے میں پوچھا تو وہ مسکرا کر بولے‘ ہم نے مسجد کے نیچے ڈسکو بنا رکھا ہے‘ امام صاحب نے وضاحت کی‘ ہمارے مسلمان لڑکے اور لڑکیاں عیسائیوں کے کلبز میں جاتے تھے‘

ہم نے انہیں دشمنوں سے بچانے کے لیے مسجد کے نیچے نائیٹ کلب بنا دیا‘ یہ اب یہیں خرمستیاں کر لیتے ہیں‘ ہم یہ سن کر ہنس پڑے‘ ہم نے وہ رات بڑی مشکل سے گزاری‘ اگلے دن جیسے تیسے ائیرپورٹ پہنچے‘ سراجیوو کے لیے وہاں کوئی فلائیٹ نہیں تھی‘ ہم بڑی دیر تک وہاں بیٹھے رہے‘ اس دوران وہاں ایک کارگو جہاز آیا‘ وہ رن وے پر اترا اور اس میں سے درجنوں لوگ اتر کر لائونج کی طرف دوڑ پڑے‘ ہمیں سیکورٹی گارڈز نے اشارہ کیا آپ لوگ دوڑ کر اس جہاز میں گھس جائو اور ہم بھاگ کر جہاز میں سوار ہو گئے‘ یہ سی ون تھرٹی ٹائپ جہاز تھا‘ سیٹس کی جگہ بینچ لگے ہوئے تھے‘

ہم بہرحال جہاز میں پھنس پھنسا کر بیٹھ گئے‘ عملے نے ہم سے دو سو ڈالر فی کس لے لیا‘ جہاز اڑا اور یہ تین گھنٹے میں بڑی مشکل سے میزائلوں سے بچتا بچاتا سراجیوو ائیرپورٹ پر اتر گیا‘ ہمیں بتایا گیا آپ کے پاس صرف ایک منٹ ہو گا ‘آپ نے اس ایک منٹ میں جہاز سے اتر کر دوڑ کر لائونج تک پہنچنا ہے‘ جہاز رن وے پر رکا‘ دروازے کھلے اور ہم نے دوڑ لگا دی‘ ہم بڑی مشکل سے گولیوں اور میزائلوں سے بچتے ہوئے‘ لائونج تک پہنچ گئے‘ وہاں کچھ بھی نہیں تھا‘ ائیرپورٹ نیٹو فورس کے قبضے میں تھا‘

درجہ حرارت منفی 26 ڈگری سینٹی گریڈ تھا‘ دور دور تک برف پڑی ہوئی تھی‘ ہیٹنگ اور بجلی دونوں نہیں تھی‘ ائیرپورٹ سے شہر جانے کا کوئی بندوبست بھی نہیں تھا‘ راستے میں سرب فوجیوں کے مورچے تھے اور وہ راہ گیروں اور گاڑیوں کو گولوں سے اڑا دیتے تھے‘ ہم لائونج میں پریشان اور اکیلے بیٹھے تھے‘ اس دوران وہاں ایک بکتر بند گاڑی آئی اور اس میں سے ایک خوب صورت خاتون اتری‘ وہ انٹرنیشنل صحافی تھی‘

نادر چودھری نے اسے بتایا ہمارے ساتھ پاکستان کے سابق وزیراعظم ہیں‘ ہم شہر جانا چاہتے ہیں‘ خاتون نے ہمیں پیش کش کی آپ مجھے وزیراعظم کا انٹرویو کرا دیں اور میں آپ کو شہر پہنچا دیتی ہوں‘ ہم نے اس کے ساتھ ڈیل کر لی‘ گاڑی میں بیئر کے درجنوں باکس پڑے تھے‘ خاتون نے مجھ سے کہا‘ میں جہاں گاڑی روکوں تم فوراً بیئر کاباکس اٹھا کر گاڑی سے باہر لٹکا دینا‘ میرے پاس انکار کا کوئی آپشن نہیں تھا‘ خاتون ائیرپورٹ سے نکلی‘ راستے میں سرب فوجیوں کا قبضہ تھا‘

خاتون ہر چیک پوسٹ پر رکتی تھی‘ مجھے اشارہ کرتی تھی اور میں شیشہ نیچے کر کے باہر کھڑے سرب فوجی کو بیئر کا باکس پکڑا دیتا یوں ہم بیئر تقسیم کرتے ہوئے شہر کی مین سڑک پر آگئے‘ خاتون سربوں کے گولوں اور گولیوں سے بچنے کے لیے زگ زیگ میں گاڑی چلا رہی تھی‘ سڑک پر اس وقت ہماری گاڑی کے علاوہ کوئی گاڑی‘ کوئی شخص نہیں تھااور ہمارے اوپر گولیاں برس رہی تھیں‘ ہم بہرحال ہر قسم کے حادثے سے بچتے بچاتے عزت بیگوچ کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گئے‘ خاتون نے ہمیں اس کے گیٹ پر پھینکا اور خود زگ زیگ میں گاڑی چلاتی ہوئی غائب ہو گئی‘ہمیں دیکھ کر بوسنیا کی فوج نے رائفلیں تان لیں‘‘۔

شاہد خاقان عباسی کا انداز ڈرامائی اور مقناطیسی تھا‘ میرے لیے ان کا سٹوری ٹیلنگ کا یہ آرٹ نیا تھا لہٰذا میں حیرت سے انہیں دیکھتا اور سنتا چلا گیا‘ وہ رکے اور لمبی سانس لے کر بولے‘ ہم نے بڑی مشکل سے انہیں سمجھایا ہمارے ساتھ پاکستان کے سابق وزیراعظم ہیں اور ہم عزت بیگوچ کو امدادی چیک دینے آئے ہیں‘ وہ آخر میں ہمیں ہانکتے ہوئے ہیڈکوارٹر کے اندر لے گئے‘ ہیڈ کوارٹر میں ہیٹنگ کا کوئی بندوبست نہیں تھا‘ عزت بیگوچ کے کمرے میں بھی صرف ایک بلب جل رہا تھا اور وہ منفی 26 ڈگری سینٹی گریڈ میں تین چار اوور کوٹ پہن کر بیٹھا ہوا تھا‘

دفتر میں ٹوٹی کرسیوں کے علاوہ کوئی فرنیچر نہیں تھا‘ ہم باتھ روم گئے تو وہ انتہائی گندہ اور بدبودار تھا‘ مدت سے اس کی صفائی نہیں ہوئی تھی‘ ہر طرف بو پھیلی ہوئی تھی‘ عزت بیگوچ نے ہمیں کافی دی‘ ہمارے کپوں میں ایک ایک گھونٹ کافی تھی‘ اس نے ہمیں بتایا ہمارے پاس اس سے زیادہ کافی بھی نہیں ہے‘ وہ جمعے کا دن تھا‘ اس نے ہمیں نماز جمعہ کی پیش کش کی‘ ہم نے قبول کر لی‘ اس نے ہمیں پانی کا آدھا آدھا گلاس دے دیا‘ اس کا کہنا تھا آپ کو اسی سے وضو کرنا ہو گا کیوں کہ ہمارے پاس پانی بھی نہیں ہے‘

ہم بہرحال اس کے ساتھ ملٹری کانوائے میں سراجیوو کی جامع مسجد پہنچ گئے‘ عزت بیگوچ نے ہمیں راستے میں بتایا ہم بے دین اور اسلام سے دور تھے‘ سربوں نے ہم پر حملہ کر کے ہمیں مسلمان بنا دیا‘ ہم نے بڑی مشکل سے نماز پڑھنا سیکھی‘ ہم اس سے پہلے صرف نام کے مسلمان تھے‘ ہم مسجد پہنچے تو ہمیں پوری مسجد میں ایک بھی پورا انسان نہیں ملا‘ جنگ سب لوگوں کے اعضاء نگل گئی تھی‘

کسی کا پائوں نہیں تھا اور کوئی ہاتھ‘ ٹانگ اور آنکھ سے محروم تھا‘ پوری مسجد ادھورے لوگوں سے بھری ہوئی تھی‘ نمازیوں کو ہمارے بارے میں پتا چلا تو لوگ عقیدت سے ہمارے ہاتھ چومنے لگے‘ ہم نے اندازہ لگایا نمازی عزت بیگوچ سے پرہیز کر رہے ہیں‘ لوگ اسے پسند نہیں کرتے تھے‘ وہ اسے اپنی مصیبتوں کی وجہ سمجھتے تھے‘ ہم نے بہرحال جیسے تیسے انتہائی سردی میں نماز مکمل کی اور عزت بیگوچ کے ساتھ واپس چل پڑے۔ (جاری ہے)

موضوعات:



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…