ندیم حسن آصف سے میری زیادہ ملاقاتیں نہیں تھیں‘ یہ پنجاب کے ہوم سیکرٹری رہے‘ لاہور کے کمشنر بھی تھے اور کچھ عرصہ میاں شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری بھی تعینات رہے‘میری وزیراعلیٰ آفس میں ان سے سرسری سی ملاقاتیں رہی تھیں‘ یہ 2013ء میں سی ڈی اے کے چیئرمین بنے تو مجھے دعوت دی اور میری ان سے پہلی تفصیلی ملاقات ہوئی‘ ملاقات کی وجہ بہت دل چسپ تھی‘
ان کا کہنا تھا آپ نے دنیا دیکھی ہے‘ آپ مجھے مشورہ دیں میں اسلام آباد کو مزید کیسے خوب صورت بنا سکتا ہوں؟ یہ سوال دل چسپ تھا لہٰذا میں نے انہیں دنیا کے مختلف شہروں کی روایات اور انتظامات بتانا شروع کر دیے اور ندیم حسن آصف ڈائری میں نوٹس بناتے چلے گئے‘ یہ میٹنگ بعدازاں چھ سات میٹنگز میں تبدیل ہوگئی اور میں اپنی بساط کے مطابق اپنی معلومات ان کے ساتھ شیئر کرتا رہا لیکن آخر میں وہی ہوا‘ کچھ ہونے سے پہلے ہی ندیم صاحب کا تبادلہ ہو گیا‘ یہ سیکرٹری ٹو پریذیڈنٹ بنے‘ آخر میں کیبنٹ سیکرٹری بنے اور پری میچور ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد ہمارا رابطہ تقریباً ختم ہو گیا مگر پھر 2019ء میں آئی بیکس کا پہلا ٹور مصر گیا‘ ہم 95 لوگ تھے‘ وہ ٹور ختم ہو گیا لیکن اس میں ہمیں سردار کامران مل گئے‘ سردار صاحب جینوئن پڑھے لکھے‘ سمجھ دار اور تجربہ کار انسان ہیں‘ یہ مختلف ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کو طبی آلات فراہم کرتے ہیں‘ کامران صاحب نے گفتگو کے دوران انکشاف کیا ندیم حسن آصف ان کے چھوٹے بھائی ہیں اور یہ روزانہ لنچ اکٹھے کرتے ہیں‘ شفیق عباسی اور طارق باجوہ بھی اس لنچ میں شامل ہوتے ہیں‘ سردار کامران کے توسط سے ندیم حسن آصف سے رابطوں کا دوسرا دور شروع ہوا‘ ان سے لاہور میں ملاقاتیں شروع ہوگئیں ‘ چھ ماہ قبل سردار صاحب کے گھر ان سے طویل ملاقات ہوئی‘ ہم دیر تک قہقہے لگاتے رہے تھے‘
وہ ہمارے ساتھ مراکو جانا چاہتے تھے‘ ان کا کہنا تھا میں مراکو نہیں گیا‘ میری خواہش ہے میں آپ لوگوں کے ساتھ فیض شہر جائوں اور دنیا کی قدیم ترین اسلامی یونیورسٹی دیکھوں‘ میں نے کہا‘ یہ بہت معمولی خواہش ہے‘ آپ جب چاہیں ہمارے ساتھ چلیں‘ گروپ نہ بنا تو میں اور آپ دونوں اکیلے چلے جائیں گے‘
یہ وعدہ ہو گیا اور زندگی چپ چاپ آگے بڑھتی رہی لیکن پھر اچانک جمعرات 20 اکتوبر کی صبح پتا چلا ندیم حسن آصف انتقال کر گئے ہیں‘ یہ خبر میرے لیے شاکنگ تھی‘ میں نے انہیں چند ماہ قبل صحت مند اور ٹھیک ٹھاک دیکھا تھا لہٰذا یقین نہیں آیا۔ندیم حسن آصف صحت مند تھے‘ عمر 65 سال تھی اور 65 سال کی عمر آج کے دور میں زیادہ نہیں ہے‘
یورپ میں لوگ 70 سال کی عمر میں زندگی کا دوسرا فیز شروع کرتے ہیں لہٰذا ندیم صاحب اس لحاظ سے جوان تھے‘ واک کرتے تھے‘ قہقہے لگاتے تھے اور یہ ان چند بیوروکریٹس میں بھی شامل تھے جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ نوکری کی کوشش نہیں کی‘ ان کا کہنا تھا میں نے جتنی نوکری کرنی تھی‘ کر لی‘ میں اب آزاد زندگی گزاروں گا اور یہ آزاد زندگی گزارنے لگے‘ اپنی مرضی سے اٹھتے تھے‘
اپنی مرضی سے سوتے تھے اور مرضی کے لوگوں سے ملتے تھے‘ زندگی مزے سے گزر رہی تھی لیکن پھر 2021ء کے وسط میں انہیں پیشاب کی تکلیف ہونے لگی‘ پیشاب رک رک کر آتا تھا‘ ٹیسٹ کرائے تو پراسٹیٹ پھولا ہوا تھا‘ ادویات شروع کیں ‘ حالت مزید خراب ہونے لگی‘ مزید ٹیسٹ ہوئے اور پراسٹیٹ کا کینسر نکل آیا تاہم ڈاکٹروں کا کہنا تھا یہ خطرناک نہیں ہے‘ ہم اسے ادویات سے کنٹرول کر سکتے ہیں‘
ادویات شروع ہوئیں لیکن کینسر دنوں میں جگر تک پہنچ گیا‘ سردار کامران نے علاج اور ادویات تلاش کرنا شروع کیں‘ پتا چلا جرمنی نے کینسر کی نیوکلیئر میڈیسن بنا لی ہے‘ جرمن کمپنی سے رابطہ کیا گیا‘ پتا چلا دوا کے ٹرائل چل رہے ہیں اور کمپنی ابھی صرف دو ملکوں کو دوا دے رہی ہے‘ برطانیہ اور پاکستان‘ سردار کامران نے مزید معلومات حاصل کیں‘ معلوم ہوا ایک ڈوز دس لاکھ روپے میں آتی ہے‘
کم از کم آٹھ ڈوز لگیں گی اور دوا چھ سے آٹھ ہفتوں میں پاکستان پہنچے گی بہرحال قصہ مختصر سردار کامران نے دوا منگوا لی لیکن اس دوران ندیم حسن ہمت ہار گئے‘ انہوں نے کھانا پینا بند کر دیا اور دنوں میں وہیل چیئر پر آ گئے‘ دوست احباب نے موٹی ویٹ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا کہنا تھا میں قدرتی طریقے سے واپس جانا چاہتا ہوں‘ مجھے ڈاکٹروں اور دوائوں کے چکر میں نہ ڈالیں‘
یہ دو بار ہسپتال لے جائے گئے لیکن دونوں مرتبہ انہیں دوا کی پہلی خوراک نہ لگائی جا سکی‘ سردار کامران کے دوست احباب سینئر ڈاکٹر ہیں‘ ڈاکٹروں نے صورت حال دیکھ کر کہا ’’ندیم حسن کے معاملے میں ایک چیز اچھی ہے‘ اسے درد نہیں ہو رہا لہٰذا یہ جتنی دیر چل سکتے ہیں انہیں چلنے دیں‘ زیادہ تنگ نہ کریں کیوں کہ ان کے مرض کا علاج ممکن نہیں ہے‘‘ چناں چہ یہ چلتے رہے اور اس دوران 19 اور 20 اکتوبر کی درمیانی رات اُس سفر پر روانہ ہو گئے جہاں سے کسی کی واپسی ممکن نہیں۔
یہ میرے احباب میں اس نوعیت کی چوتھی موت ہے‘ میرے صحافی دوست مسعود ملک پراسٹیٹ کینسر کا شکار ہوئے اور دنوں میں دنیا سے رخصت ہو گئے‘ میرے دوست خاور محمود کو اچانک کینسر کا پتا چلا‘ یہ جرمنی گئے‘ علاج کراتے رہے لیکن طبیعت نہ سنبھل سکی تو مجھ سے جولیٹ کے شہر کا نام پوچھا‘ ورونا گئے‘ جولیٹ کے مجسمے کے ساتھ تصویر بنوائی‘ بلیک فاریسٹ میں چند دن گزارے‘
کراچی واپس آئے‘ اپنی کمپنی بند کی‘ اثاثے بچوں میں تقسیم کیے اور ایک صبح خبر آئی خاور محمود ہم میں نہیں رہے‘ڈاکٹر اسلم میرے بہت قریبی دوست تھے‘ وہ دنوں میں ہم سے رخصت ہو گئے اور اب ندیم حسن بھی ان میں شامل ہو گئے‘ احباب کی موت انسان کو ہمیشہ دکھی کر دیتی ہے‘ میں بھی دکھی ہو جاتا ہوں لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوچنے لگتا ہوں ان لوگوں کے بھی چند خواب تھے‘ زندگی سے ان کے بھی کچھ تقاضے تھے‘ یہ بھی بہت کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن کیا یہ لوگ اپنی وش لسٹ پوری کر سکے؟
کیا یہ کام یاب ہونے کے بعد بھی وہ زندگی گزار سکے جس کا خواب باندھ کر یہ سفر پر روانہ ہوئے تھے؟ یہ سوال ہر بار مجھے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے متعارف کرا جاتا ہے‘ یہ کائنات 200 ارب کہکشائوں پر مشتمل ہے اور ایک کہکشاں میں کم از کم ساڑھے چار سو ارب سیارے ہوتے ہیں‘ ہماری کہکشاں ملکی وے سے قریب ترین کہکشاں کینس میجرڈورف ہم سے 25 ہزار نوری سال پر واقع ہے
اور ہم اگر ایک نوری سال کو وقت میں تبدیل کر یں تو یہ ایک لاکھ 86 ہزار سال بنیں گے‘آپ اسے 25 ہزار سے ضرب دے کر دیکھ لیں! ہمارے سولر سسٹم میں مریخ ہماری زمین کا ہمسایہ ہے اور اس ہمسائے پر لینڈ کرنے کے لیے بھی ہم اگر فضا میں دس کلومیٹر فی سیکنڈ کی سپیڈ سے اڑیں تو ہمیں سات ماہ لگتے ہیںاور یہ ہم سے قریب ترین ہے اور اس پوری کائنات میں اب تک زندگی کا سراغ صرف زمین پر ملا ہے
اور ہم اس زمین کے گولڈن ٹائم میں زندہ ہیں چناں چہ زندگی کی نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہو گا‘ ہمیں اس زندگی کے ایک ایک لمحے سے لطف اٹھانا چاہیے‘ دوسری حقیقت زندگی عارضی ہے‘ یہ کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے‘ ہمارے سامنے لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور لوگ سال بعد انہیں مکمل طور پر بھول جاتے ہیں چناں چہ جو بھی کرنا چاہتے ہیں آپ وہ آج کر لیں کل کا انتظار نہ کریں‘
کائنات کے اس سسٹم میں کل کا لفظ فٹ ہی نہیں ہوتا‘ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی زندگی دے لیکن اس کی کیا گارنٹی ہے آپ لمبی عمر کے باوجود اپنی مرضی کی زندگی بھی گزار سکیں گے؟ انسان کے اعضاء ساٹھ سال کے بعد ساتھ چھوڑنا شروع کر دیتے ہیں‘ آپ اگر ستر سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنا چاہیں گے یا بسوں اور کشتیوں پر دنیا کا سفر کرنا چاہیں گے تو یہ مشکل ہو جائے گا‘ یہ آج میں رہ کر کرنے والے کام ہیں‘
ان کی قضا نہیں ہوتی چناں چہ آپ یہ آج ہی ادا کر لیں‘ کل ہر شخص کی زندگی میں ہر روز طلوع نہیں ہوتا اور تیسری حقیقت موت برحق ہے‘ دنیا کا ہر شخص فوت ہوتا ہے اور وہ ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ زندگی کی توفیق کم لوگوں کو دیتا ہے‘ آپ اگر زندہ ہیں تو پھر زندگی گزاریں‘ زندہ ہونے کا ثبوت دیں‘
مُردوں جیسی زندگی گزار کر دنیا سے نہ جائیں‘یہ کیا بات ہوئی آپ آئے تو کسی کو پتا نہ چلا‘ آپ رہے تو کسی کو پتا نہیں تھا اور آپ چلے گئے تو بھی کسی کو خبر نہیں ہوئی‘ آپ ایسی زندگی نہ گزاریں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ ہم انسان ہیں ہمیں کم از کم شہد کی مکھی سے بہتر زندگی گزارنی چاہیے‘
یہ بے چاری ساری زندگی پھولوں کا رس اکٹھا کرتی رہتی ہے لیکن جب شہد پک کر تیار ہو جاتا ہے تو انسان مکھیاں اڑا کر سارا شہد چٹ کر جاتا ہے‘ آپ یقین کریں آپ نے زندگی میں جو کمایا‘ جو بنایا‘ وہ شہد ہے‘ اس کے صرف آپ ہی حق دار ہیں لہٰذا یہ شہد خود کھائیں‘ اس سے خود لطف اٹھائیں ورنہ کسی دن آپ بھی شہد کی مکھی کی طرح اڑا دیے جائیں گے اور آپ کا مال‘ آپ کی کمائی کوئی اور چاٹ جائے گا۔