صلالہ چیک پوسٹ مہمند ایجنسی میں پاک افغان بارڈر پر واقع ہے‘ 26 نومبر 2011ءکی صبح دو بجے افغانستان کی طرف سے نیٹو فورس کے دو اپاچی ہیلی کاپٹر صلالہ چیک پوسٹ پر پہنچے اور پاکستان کی فوجی بیرکس پر حملہ کر دیا‘ ہیلی کاپٹرز کو امریکی فوج کے اے 130 گن شپ اور دو ایف 15 ایگل فائیٹر جیٹس کور دے رہے تھے‘ پاکستانی جوانوں نے جوابی فائرنگ کی لیکن حملہ اچانک اور شدید تھا چناں چہ پاک فوج کے 26جوان شہید ہو گئے‘ شہداءمیں میجر اور کیپٹن لیول کے دوافسر بھی شامل تھے۔
یہ واقعہ خوف ناک اور ناقابل برداشت تھا‘ پاکستان نے شدید احتجاج کیااور نیٹو فورس کی سپلائی بند کر دی‘ جنرل لائیڈ آسٹن اس وقت سیٹ کام کے کمانڈر تھے‘ یہ سیٹ کام کی تاریخ کے پہلے سیاہ فام کمانڈر تھے‘ یہ واقعہ ان کی کمانڈ میں ہوا تھا‘ یہ دسمبر 2011ءمیں ترقی پا کر امریکی فوج کے وائس چیف آف سٹاف بن گئے‘ یہ اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے‘ ان کا کہنا تھا فائرنگ کا آغاز پاکستانی فوجیوں کی طرف سے ہوا تھا‘ ان کا یہ موقف غلط تھا لیکن طاقت کیوں کہ اپنی غلطی کو غلطی نہیں مانا کرتی چناں چہ ان کا موقف ہر جگہ سنا اور مانا جا رہا تھا‘ عمران خان اس وقت اپوزیشن تھے‘ لاہور میں ان کا تازہ تازہ جلسہ کام یاب ہوا تھا‘ یہ اپنے ٹائیگرز کے ساتھ پشاور گئے اور نیٹو سپلائی رکوانے کے لیے سڑک پر دھرنا دے دیا‘ جنرل لائیڈ آسٹن کو یہ حرکت بھی پسند نہیں آئی تھی اور انہوں نے امریکا میں موجود عمران خان کے دوستوں سے شکوہ کیا تھا‘ بہرحال صلالہ چیک پوسٹ کے واقعے کی وجہ سے پاک امریکا تعلقات تاریخی سرد مہری کا شکار ہوئے‘ ہیلری کلنٹن اس وقت وزیر خارجہ تھیں‘ انہوں نے تین جولائی 2012ءکو پاکستان سے ڈھیلی ڈھالی معذرت کر لی لیکن اصل ذمہ دار جنرل لائیڈ آسٹن نے آج تک معذرت کی اور نہ کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار کیا‘ یہ لائیڈ آسٹن اب امریکا کے نئے صدر جوبائیڈن کے وزیر دفاع ہیں چناں چہ آپ آج بڑی آسانی سے مستقبل میں پاکستان اور امریکا کے دفاعی تعلقات کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
صلالہ چیک پوسٹ پاک امریکا تعلقات کی خرابی کا پہلا واقعہ نہیں تھا‘ اس سے پہلے دو خوف ناک واقعات ہو چکے تھے‘ آپ کو ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ یاد ہو گا‘ یہ واقعہ 27 جنوری 2011ءکو پیش آیا تھا‘ امریکی جاسوس اور ہٹ مین نے لاہور میں دو نوجوانوں کو گولی مار دی‘ گرفتار ہوا اور یہ واقعہ بین الاقوامی ہو گیا‘ ایورل ہینز اس وقت صدر اوبامہ کی ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر تھی‘ یہ سی آئی اے کی تاریخ کی پہلی ڈپٹی ڈائریکٹر بھی رہی‘ یہ سارا ایشو ایورل کے سامنے پروان چڑھا اور یہ اس کا براہ راست حصہ رہی۔
یہ خاتون اب جوبائیڈن کی کابینہ میں نیشنل انٹیلی جینس ڈائریکٹر ہو گی اور یہ امریکا میں اہم ترین پوزیشن ہے اور جوبائیڈن کون ہیں؟ یہ صدر اوبامہ کے دونوں ادوار میں امریکا کے نائب صدر تھے۔ دوسرا واقعہ ایبٹ آباد آپریشن تھا‘ امریکا نے اسامہ بن لادن کو دو مئی 2011ءکو ایبٹ آباد آپریشن کے دوران ہلاک کر دیا ‘صدر اوبامہ نے اپنے ساتھیوں سمیت وائیٹ ہاﺅس کے آپریشن روم میں آپریشن لائیو دیکھا تھا‘ آپریشن کے تمام انتظامات انتھونی بلنکس نے کیے تھے‘ یہ اس وقت آپریشن روم میں تھا۔
یہ بعد ازاں صدر اوبامہ کا ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اور ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ رہا‘یہ بلنکس اب جوبائیڈن کا وزیر خارجہ ہو گا‘ بلنکس اوبامہ دور میں شکیل آفریدی کے حصول کے لیے کوشش بھی کرتا رہا اور آصف علی زرداری اور حسین حقانی کے خلاف میمو سکینڈل بھی ان کے سامنے بنا تھا اور یہ حسین حقانی کے ساتھ رابطے میں بھی تھا‘ حسین حقانی اس وقت پاکستان سے مفرور ہیں‘ یہ پاکستان کے خلاف ریسرچ پیپر تیار کرتے ہیں‘ تقریریں کرتے ہیں اور جوبائیڈن کے آگے پیچھے پھرتے رہتے ہیں۔
یہ کردار صرف یہاں تک محدود ہوتے تو شاید گزارہ ہو جاتا لیکن بدقسمتی سے جوبائیڈن کی نائب صدر کملا ہیرس ہوں گی اور ان کی والدہ شیاملہ گوپالن بھارتی سفارت کارپی وی گوپالن کی صاحبزادی تھیں اور کملا ہیرس کا جھکاﺅ بھارت کی طرف ہے‘ یہ حقیقت پوری دنیا جانتی ہے‘ آپ ایک اور حقیقت بھی دیکھیے‘ تاریخ میں پہلی بار 12 بھارتی نژاد شخصیات امریکی صدر (جوبائیڈن) کی سرکاری ٹیم میں شامل ہورہے ہیں‘ نیرا ٹینڈن وائیٹ ہاﺅس کی مینجمنٹ اور بجٹ کی ڈائریکٹر ہو گی۔
ڈاکٹر ووک مورتھی سرجن جنرل‘ ونیتا گپتا ایسوسی ایٹ اٹارنی جنرل‘ ایشا شاہ وائیٹ ہاﺅس کی ڈیجیٹل آفیسر‘ گوتم رگوان صدر کے دفتر میں ڈپٹی ڈائریکٹر‘ بھارت راما مورتی ڈپٹی ڈائریکٹر نیشنل اکنامک کونسل‘ وینے ریڈی صدر کا سپیچ رائیٹر‘ ترن چھابڑا نیشنل سیکورٹی کا سینئر ڈائریکٹر‘ سومونا گوہا جنوبی ایشیا کی سینئر ڈائریکٹر‘ سبرینا سنگھ ڈپٹی پریس سیکرٹری‘ ویدنت پٹیل اسسٹنٹ پریس سیکرٹری اور شانتی کلاتھل ہیومن رائیٹس اور جمہوریت کی کوآرڈی نیٹر ہوگی ‘ یہ بارہ اہم ترین عہدیدار بھارت میں پیدا ہوئے تھے اور یہ عملاً بھارتی ہیں اور بھارت ان سب کے ساتھ ساتھ دو سال کے لیے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا عارضی ممبر بھی بن چکا ہے چناں چہ مستقبل کا سارا نقشہ ہمارے سامنے پڑا ہے۔
آپ صورت حال کی نزاکت ملاحظہ کیجیے‘ صدر اوبامہ کی پاکستان مخالف انتظامیہ جوبائیڈن کے ساتھ اقتدار میں واپس آ رہی ہے‘ وزارت دفاع کا قلم دان جنرل لائیڈ آسٹن سنبھال رہے ہیں ‘وزیر خارجہ انتھونی بلنکس ہوں گے‘ سی آئی اے سمیت پورے ملک کی انٹیلی جنس ایورل ہینز کے پاس ہو گی‘ امریکا کی نائب صدر کملا ہیرس ہو گی‘ 12 بھارتی شہری وائیٹ ہاﺅس کے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوں گے اور بھارت اس کے ساتھ سلامتی کونسل کا ممبر بھی ہے اور ہم ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں بھی ہیں۔
ہماری اگلی سماعت فروری 2021ءمیں ہو گی‘ بھارت مقبوضہ کشمیر پر قابض بھی ہو چکا ہے‘ یہ بلوچستان میں گڑبڑ بھی کر رہا ہے‘ یہ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کا نام لے کر ہمیں پوری دنیا میں بدنام بھی کر رہا ہے‘ ہماری معیشت کا حال بھی پوری دنیا کے سامنے ہے اور ہمارے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ معاملات بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور اوپر سے جوبائیڈن امریکی صدر ہوں گے اور یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو دوسری بار ایکسٹینشن نہیں لینے دی تھی چناںچہ ہمارے آنے والے دن کیسے ہوں گے ساری دنیا جانتی ہے۔
صرف ہمیں معلوم نہیں ہے‘ ہمیں اس وقت کیا کرنا چاہیے ؟ یہ سوال بہت اہم ہے‘ ہمیں اس وقت سرجوڑ کر مستقبل کے خطرات سے نبٹنے کی مضبوط منصوبہ بندی کرنی چاہیے ‘ ہمیں امریکا کی نئی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کے نئے دروازے کھولنے کا بندوبست کرنا چاہیے مگر ہم کیا کررہے ہیں؟ پوری حکومت پی ڈی ایم سے نبٹنے میں مصروف ہے اور پی ڈی ایم حکومت کو سڑکوں پر گھسیٹ رہی ہے‘ ملک روز بند ہوتا اور روز کھلتا ہے‘ وزیراعظم براڈ شیٹ اور فارن فنڈنگ کیس میں اتنے مصروف ہیں کہ ان کے پاس پاک امریکا تعلقات کے لیے وقت ہی نہیں۔
میاں نواز شریف کے سعودی عرب شفٹ ہونے کے خطرات نظر آ رہے ہیں چناں چہ حکومت نے لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کو ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد سعودی عرب میں سفیر لگا دیا‘ جنرل بلال اکبر ماضی میں مشہور زمانہ ٹویٹ کے ایشو پر میاں نواز شریف حکومت سے مذاکرات کرتے رہے تھے‘ اس دور میں پنجاب ہاﺅس میں ان کی حکومت کے وزارتی گروپ سے ملاقات ہوئی تھی‘ چودھری نثار اور احسن اقبال بھی ملاقات میں موجود تھے اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد بھی۔
اس میٹنگ کے دوران جنرل بلال اکبر کی ایک بات بہت مشہور ہوئی تھی‘ ان کا کہنا تھا آپ لوگ بار بار کہتے ہیں ”سول ملٹری تعلقات‘ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں کوئی خرابی نہیں‘ سویلین پاکستانی اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں‘ آپ گورنمنٹ ملٹری تعلقات کہا کریں یہ خراب ہیں“ میں ایشو کی طرف واپس آتا ہوں‘ بھارت کی یلغار بڑھتی جا رہی ہے‘ امریکا میں حکومت بدل رہی ہے‘ عرب اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں‘اسرائیل اور بھارت کے تعلقات ڈھکی چھپی بات نہیں ہیں‘ تحریک لبیک اگلے ماہ سے فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے لیے سڑکوں پر آ رہی ہے۔
یہ لوگ دھرنا دیں گے اور اگر حکومت نے دباﺅ میں آ کر فرنچ سفیر کو نکال دیا تو پوری یورپی یونین فرانس کے ساتھ کھڑی ہو جائے گی اور بھارت اسے ہر فورم پر استعمال کرے گا‘ معیشت کا جنازہ پہلے نکل چکا ہے‘ پی ڈی ایم فوج پر بھی گولہ باری کر رہی ہے جب کہ حکومت نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اپوزیشن کو للکارنے کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے‘ یہ روز آستین چڑھا کر اپوزیشن کا منہ چڑاتے رہتے ہیں لہٰذا آپ پھر مستقبل کا اندازہ کر لیجیے‘ ہم صحرا کے عین درمیان کھڑے ہو کر ایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں۔
کیا آپ کو اب بھی یہ اندازہ نہیں ہو رہا ہمیں کسی دشمن‘ کسی مخالف کی ضرورت نہیں رہی‘ ہم خود اپنے لیے کافی ہیں‘ نفسیات کی ایک خوف ناک بیماری ہے جس میں انسان شیشے سے اپنا جسم کھرچنا شروع کر دیتا ہے‘ ڈاکٹرایسے مریض کو کمرے کے درمیان باندھ کر رکھتے ہیں‘ مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے ہم من حیث القوم اس بیماری کا شکار ہیں‘ ہم خود اپنے آپ کو کھرچتے چلے جا رہے ہیں چناں چہ اب کسی دشمن کو ہمیں برباد کرنے کی ضرورت نہیں۔
ہم خود ہی برباد ہوتے ہوتے فنا ہو جائیں گے تاہم میں کبھی کبھی یہ بھی سوچتا ہوں ہم حماقت کے سمندر میں مزید کتنا ڈوبنا چاہتے ہیں؟ پانی سر سے اونچا تو ہو چکا ہے‘ ہم اور کیا چاہتے ہیں؟ کیا ہم دنیا میں عبرت کا ریسرچ پیپر بننا چاہتے ہیں تاکہ مستقبل کے لوگ ہماری مثال دے کر اپنی نسلوں کو بتا سکیں ایک تھی ایٹمی قوم جو آپس میں لڑ لڑ کر ختم ہو گئی! اگر ہمارا مقصد یہ ہے تو پھر آپ بے فکر ہو جائیں ہم ما شاءاللہ اپنے مقصد کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں بس ایک چنگاری کی کمی ہے اور بات ختم۔