”ہم عالمی سطح پر بے وقوف‘ نااہل اور بے اعتبار ثابت ہو رہے ہیں‘ یہ صورت حال اگر اسی طرح جاری رہی تو دنیا میں کوئی شخص‘ کوئی کمپنی اور کوئی ادارہ ہم پر اعتبار نہیں کرے گا“ صاحب آج دکھی تھے اور یہ جب بھی دکھی ہوتے ہیں‘ یہ کافی اور سگار دونوں چھوڑ دیتے ہیں اور بار بار اپنے سر کے بال نوچتے ہیں‘ یہ آج بھی بال نوچ رہے تھے اور میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔صاحب نے ہاتھ جھاڑے اور بولے ”خدا کی پناہ ہم عالمی سطح پر قطار میں کھڑے ہو کر بار بار جوتے کھارہے ہیں‘ آپ ریکوڈک کو دیکھو‘یہ پاکستان کی عالمی سبکی ہے‘ ہم دلدل میں دھنس گئے ہیں“۔
وہ رکے ‘ ذرا سا سوچا اور بولے ”ریکوڈک آتش فشانی صحرا ہے‘ صحرا کے چار کلو میٹر نیچے تانبے اور سونے کے ذخائر ہیں‘ دنیا میں سونا اور تانبا نکالنے کی صرف سات بڑی کمپنیاں ہیں‘ یہ دھاتیں حساس آلات کے ساتھ نکالی جاتی ہیں‘ یہ پتھروں میں مکس ہوتی ہیں‘ زمین کی انتہائی گہرائی میں چٹانیں کاٹ کر باہر لائی جاتی ہیں‘ یہ چٹانیں پگھلائی جاتی ہیں اور پھر سونے کو پتھر سے الگ کیا جاتا ہے‘ دنیا میں سونے کی سب سے بڑی اور گہری کان ساﺅتھ افریقہ میںایم پوننگ کے مقام پر ہے‘ وہاں سے بھی ایک ٹن پتھر سے صرف دس گرام سونا نکلتا ہے‘ کمپنی کو یہ سوناکان کے دھانے پر 20 ڈالر میں فی گرام پڑتا ہے‘ریکوڈک کے ذخائر اس سے کہیں کم ہیں‘ پاکستانی حکومت نے 1993ءمیں بین الاقوامی فرم بی ایچ پی منرلز (بروکن ہلز پراپرٹیز منرلز) کے ساتھ ریکوڈک سے تانبا اور سونا نکالنے کا معاہدہ کیا‘ کمپنی نے یہ دھاتیں بھی نکالنی تھیں‘ علاقے میں انفرا سٹرکچر بھی بچھانا تھا‘ مقامی لوگوں کو ٹرینڈ بھی کرنا تھا اور بلوچستان حکومت کو منافع کی رقم کا 25 فیصد بھی دینا تھا‘ دو فیصد رائلٹی اس کے علاوہ تھی‘ یہ بہت اچھا معاہدہ تھا‘ پاکستان کے پلے سے کچھ نہیں جانا تھا اور ہم نے کمپنی سے رقم کے ساتھ ساتھ مہارت بھی حاصل کر لینی تھی‘ بی ایچ پی نے 1993ءسے 1997ءتک 14 مقامات پر ڈرلنگ کی اور یہ لوگ بڑی حد تک ذخائر کے قریب پہنچ گئے‘ بی ایچ پی نے بعد ازاں اپنا 75 فیصد حصہ ٹیتھیان کمپنی کو بیچ دیا۔
ٹیتھیان چلی کی کمپنی اینٹو فاگسٹا اور کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کا جوائنٹ وینچرہے‘ بلوچستان حکومت نے 2006ءمیں ٹیتھیان کے ساتھ معاہدے کی تصدیق کر دی‘ کمپنی نے 2011ءتک پراجیکٹ پر 220 ملین ڈالر خرچ کر دیے لیکن کمپنی جب تانبے اور سونے کے ذخائر تک پہنچ گئی تو اعظم سواتی یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں شامل ہونے کے باوجود کلمہ جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے‘ یہ ”میرے وطن کو لوٹا جا رہا ہے“ کا نعرہ لگا کر سپریم کورٹ چلے گئے۔
بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی بھی کود پڑے‘ یہ وہی مشتاق رئیسانی ہیں نیب نے جن کے گھر سے 65 کروڑ روپے برآمد کیے تھے‘ وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اسلم رئیسانی بھی میدان میں آگئے اور آج کے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے بھائی رزاق سنجرانی بھی ریکوڈک کے سامنے کھڑے ہو گئے‘ رہی سہی کسر ثمر مبارک مند نے پوری کر دی‘ یہ میڈیا میں آئے اور فرما دیا ‘یہ سونا ہم خود نکال سکتے ہیں اور ہم اس سے 131 بلین ڈالر کما سکتے ہیں‘ افتخار محمد چودھری چیف جسٹس تھے۔
یہ ”چیف تیرے جاں نثار‘ بے شمار بے شمار“ کا نعرہ لگوانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے چناں چہ چیف جسٹس نے سوموٹو لے لیا اور پھر اس کے بعد بربادی اور بے عزتی کا سلسلہ شروع ہو گیا“صاحب رکے‘ لمبی آہ بھری اور پھر بولے ” سپریم کورٹ نے 7 جنوری 2013ءکو ریکوڈک معاہدہ ”نل اینڈ وائیڈ“ قرار دے دیا‘ اس کا سیدھا سادہ مطلب ہوتا ہے یہ معاہدہ اور یہ منصوبہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں‘ ٹیتھیان یہ فیصلہ لے کر آئی سی ایس آئی ڈی(انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹل منٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹ) میں چلی گئی اور پاکستان کے خلاف 16 بلین ڈالر کا دعویٰ کر دیا۔
حکومت نے قانونی جنگ کے لیے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی اہلیہ شیری بلیئر کی فرم ہائر کر لی‘ یہ فرم مقصد پورا نہ کر سکی تو برطانوی فرم ایلن اینڈ اووری ہائر کر لی گئی‘مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوا تو امریکی فرم جی ایس ٹی کی خدمات حاصل کر لی گئیں‘ حکومت نے ان تینوں فرمز کو ایک ارب روپے فیس دی لیکن فیصلہ اس کے باوجود پاکستان کے خلاف آ گیا‘ ہمیں اب ٹیتھیان کو 6 ارب ڈالر ادا کرنا ہوں گے ورنہ دوسری صورت میں ہمارے بیرون ملک اثاثے ضبط ہو جائیں گے‘ یہ ایک ہزیمت ہے۔
دوسری ہزیمت فیصلے کی تحریر ہے‘ ثالثی عدالت نے پیرا گراف171 میں لکھا ”سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس پیشہ وارانہ مہارت بھی نہیں تھی اور یہ بین الاقوامی قوانین سے بھی نابلد تھی“ بحیثیت قوم یہ ہماری اور ہماری سپریم کورٹ کی بے عزتی ہے‘ ہم نے یوں تانبا اور سونا نکالنے کا موقع بھی ضائع کر دیا‘ہم نے بلوچستان کو مائننگ کے جدید ترین انفرا سٹرکچر سے بھی محروم کر دیا‘ ہم نے مائننگ کی جدید ٹریننگ کا موقع بھی کھو دیا۔
ہم نے اپنی بے عزتی بھی کرا لی‘ ہم عالمی سطح پر بے اعتبار بھی ثابت ہو گئے‘ ہم نے فیس کی مد میں ایک ارب روپے بھی ضائع کر دیے‘ ہمیں چھ ارب ڈالرجرمانہ بھی ہو گیا اور اب مستقبل میں کوئی بڑی کمپنی بھی پاکستان نہیں آئے گی چناں چہ قوم نے افتخار محمد چودھری کے لیے تالیاں اور نعرے لگوانے کے چکر میں اپنا بیڑہ غرق کر لیا“ صاحب خاموش ہو گئے‘ میں بھی خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔وہ تھوڑی دیر رک کر بولے ”کارکے میں بھی یہی ہوا۔”کارکے“ ترکی کی بجلی بنانے کی مشہور کمپنی ہے۔
اس کے پلانٹ بحری جہازوں میں ہوتے ہیں‘ یہ سمندر میں جہاز کھڑے کرتے ہیں‘ بجلی بناتے ہیں اور یہ بجلی مین لائین سے جوڑ دیتے ہیں‘ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2009ءمیں ”کارکے“ کے ساتھ معاہدہ کیا‘ بجلی بنانے کے جہاز کراچی منگوائے اور کارکے بجلی سپلائی کرنے لگی‘ سپریم کورٹ نے 9مئی 2010ءکو سوموٹو لے لیا اور مقدمہ چلنا شروع ہو گیا‘ کارکے کا مالک پاکستان کے چکر لگا لگا کر تھک گیا‘ اس نے ترکش ایمبیسی میں 19 ملین ڈالر کا چیک رکھا اور سفیر سے کہا‘ آپ یہ انہیں دے دیں اور ان سے کہیں میری جان چھوڑ دیں لیکن سپریم کورٹ نے 30 مارچ 2012ءکو اس معاہدے کو بھی ”نل اینڈ وائیڈ“ قرار دے دیا۔
چیف جسٹس کے حکم پر ”کارکے“ کے جہاز بھی ضبط کر لیے گئے ‘ یہ بھی آئی سی ایس آئی ڈی میں چلا گیا‘ ہم نے اس کیس میں بھی وکیلوں کو کروڑوں روپے فیس دی لیکن آئی سی ایس آئی ڈی نے ہمیں اس کیس میں بھی 22 اگست 2017ءکو 846ملین ڈالر جرمانہ داغ دیا۔ ”کارکے“ کے مالکان پاکستان کے ساتھ آﺅٹ آف کورٹ سیٹل منٹ کے لیے تیار تھے‘ یہ لندن میں شاہد خاقان عباسی‘ خواجہ آصف اور سیکرٹری واٹر اینڈ پاورسے بھی ملے ‘ یہ 150 ملین ڈالر میں سیٹل منٹ کرنا چاہتے تھے لیکن شاہد خاقان عباسی کے بقول ہم نے دو وجوہات کی بنا پرانکار کر دیا۔
اول سپریم کورٹ معاہدے کو ”نل اینڈ وائیڈ“ قرار دے چکی تھی چناں چہ ہماری سیٹل منٹ عدالت میں چیلنج ہو جاتی اور ہم نیکی کرتے کرتے مجرم بن جاتے‘ دوسرا میرے خلاف بھی یہ پروپیگنڈا شروع ہو جاتا میں نے دس پندرہ ملین ڈالر لے کر ”کارکے“ کو ڈیڑھ سو ملین ڈالر تھما دیے اور یوں میں خواہ مخواہ کرپٹ مشہور ہو جاتا‘ آپ ملاحظ کیجیے قوم کو پروپیگنڈے کا خوف کتنا مہنگا پڑ رہا ہے‘ یہ فیصلہ بھی ٹائم بم ہے‘ یہ بھی ملک کو نقصان پہنچائے گا اور آخری ایشو کلبھوشن یادیو تھا۔
ہم نے 3 مارچ 2016ءکو بلوچستان کی تحصیل ماشکیل سے بھارت کا جاسوس پکڑ لیا‘یہ ہماری بہت بڑی اچیومنٹ تھی لیکن ہمیں اسے سزائے موت سنانے کی کیا ضرورت تھی؟ دنیا بھر میں جاسوس پکڑے جاتے ہیں لیکن انہیں سزائے موت نہیں دی جاتی‘ یہ جیلوں میں مر کھپ جاتے ہیں یا پھر جاسوس کے بدلے جاسوس کا سودا کر کے یہ دشمن ملک کے حوالے کر دیے جاتے ہیں‘ ہم بھی چپ چاپ کلبھوشن کو جیل میں رکھ لیتے اور کیس چلاتے رہتے‘ دوسرا بھارت اس تک قونصلر رسائی مانگ رہا تھا‘ ہم دے دیتے‘ ہمیں کیا فرق پڑنا تھا۔
ہم نے 25دسمبر 2017ءکو انسانی ہمدری کی بنیاد پر اس کی فیملی کو اس سے ملوایا‘ کیا فرق پڑ گیا‘ ہمیں کیا نقصان ہوا؟ہم قونصلر رسائی بھی دے دیتے تو کیا فرق پڑ جاتا مگر ہم نے قونصلر رسائی سے انکار اور سزائے موت سنا کر بھارت کو عالمی عدالت میں جانے کا موقع دے دیا‘ ہم نے اس کے بعد کیا کمایا؟ ہم نے وکیلوں کی بھاری فیسیں بھی بھریں اور ہم اب اسے عالمی عدالت کے حکم پر قونصلر رسائی بھی دیں گے اور اسے پھانسی بھی نہیں دے سکیں گے‘ کیا یہ عقل مندی تھی؟“۔
وہ رکے اور آہستہ سے بولے ”ہم نے اس ریاست کو مذاق بنا دیا ہے‘ ہم اگر باز نہ آئے تو آپ یقین کریں لوگ ہمارے سونے پر بھی اعتبار نہیں کریں گے‘ یہ ہماری فضا سے بھی گزرتے ہوئے گھبرائیں گے‘ دنیا کا کوئی ملک‘ کوئی کمپنی اور کوئی ادارہ ہم پر اعتماد نہیں کرے گا“ وہ رکے اور بولے ”خدا کے لیے یہ فیصلہ کر لیں ہم خواہ دس سال سوچ لیں‘ ہم خواہ بیس پچیس سال مطالعہ اور تجزیہ کر لیں لیکن ہم اگر ایک بار کوئی معاہدہ کر لیں تو پھر ہم اس پر ڈٹ جائیں گے‘ ہم پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ورنہ مزید ایک غلطی کی دیر ہے اور ہم دنیا میں بے اعتبار قوم ڈکلیئر ہو جائیں گے‘ لوگ پھر ہمارے کسی معاہدے‘ کسی وعدے پر یقین نہیں کریں گے“ وہ خاموش ہو گئے اور اپنے سر کے بال نوچنا شروع کر دیے۔