بل گیٹس بن جائیں

26  مئی‬‮  2019

یہ مثال ہے حقیقت نہیں۔اللہ تعالیٰ نے 31 دسمبر 1999ءکو دنیا کے تین بااثر ترین لوگوں کے پاس پیغام بھجوایا‘ میں اللہ تعالیٰ ہوں‘ میں نے کائنات بنائی اور میں کل یہ پوری کائنات ختم کردوں گا‘ کرہ ارض پر موجود تمام انسانوں کے پاس اب صرف ایک دن بچا ہے‘ آپ ان کو بتا دیں یہ ایک دن میں جو بھی کر سکتے ہیں یہ کر لیں‘ وہ تینوں بااثر لوگ پیغام سن کر پریشان ہو گئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا‘ یا باری تعالیٰ دنیا میں اس وقت چھ ارب لوگ ہیں‘ آپ نے اس کام کےلئے صرف ہمیں کیوں منتخب کیا۔

اللہ تعالیٰ نے جواب بھجوایا‘ تم دنیا کے بااثر ترین لوگ ہو‘ دنیا تمہاری بات کو سیریس لے گی چنانچہ تم ٹی وی پر جاﺅ اور دنیا کو باری باری میرا پیغام پہنچاﺅ‘ یہ تینوں لوگ فوراً دوڑ کر ٹیلی ویژن پہنچ گئے‘ ہم کہانی کو آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بتاتے چلیں وہ تین لوگ کون تھے‘ پہلا شخص امریکا کاصدر بل کلنٹن تھا‘دوسرا شخص گلف وار میں امریکن ہیرو کولن پاﺅل تھا‘ امریکی فوج دنیا کی طاقتور ترین فوج ہے اور کولن پاﺅل اس فوج کا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف رہا‘ یہ دنیا کا سیریس ترین جنرل بھی کہلاتا تھا اور تیسرا شخص دنیا کا امیر ترین بزنس مین بل گیٹس تھا‘ یہ تینوں طاقتور بھی تھے‘ بااثر بھی تھے اور سیریس بھی تھے‘ بل کلنٹن سب سے پہلے ٹیلی ویژن پر آیا اور اس نے پوری دنیا کو مخاطب کر کے کہا”میں آپ کےلئے ایک اچھی اور دوسری بری خبر لایا ہوں“ لوگ حیرت سے دیکھنے لگے‘ بل کلنٹن بولے ”اچھی خبر یہ ہے امریکی صدر دنیا کا واحد سربراہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے براہ راست پیغام بھجوایا اور یہ امریکی قوم کی حیثیت سے ہم سب کا کریڈٹ ہے‘اللہ تعالیٰ نے بھی ہمیں دنیا کی سپرپاور مان لیا“ وہ رکے اور بولے ”اور آپ اب بری خبر بھی ملاحظہ کیجئے‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے‘ کل پوری کائنات تباہ ہو جائے گی۔ دنیا میں اکیسویں صدی کا سورج طلوع نہیں ہو گا“ بل کلنٹن نے یہ کہا اور ٹیلی ویژن سٹوڈیو سے باہر نکل گئے۔

بل کلنٹن کے بعد کولن پاﺅل عوام کے سامنے آئے اور فوجی انداز میں کہا” لیڈیز اینڈ جنٹل مین‘ آپ کےلئے ایک بری خبر ہے اور دوسری اچھی‘ میں پہلے آپ کو بری خبر سناﺅں گا‘ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے ہم نے 1991ءمیں گلف میں کیا کیا تھا؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ یہ کل پوری دنیا کو تباہ کر دے گا‘ یہ بری خبر ہے لیکن اچھی خبر یہ ہے‘ ہم کل اللہ تعالیٰ کے ساتھ مل کر عراق کو تباہ کر دیں گے“ میں کہانی کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو بتاتا چلوں۔

امریکی صدر بش سینئر نے 1990ءمیں صدام حسین کو کویت پر قبضے کےلئے اکسایا‘ عراقی فوجیں جب کویت میں داخل ہو گئیں تو امریکا نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر عراق پر حملہ کر دیا‘یہ امریکی سازش تھی اور اس سازش سے سعودی عرب‘ عراق اور کویت تینوں کی معیشت تباہ ہو گئی‘ بل کلنٹن کے دور میں امریکا عراق کشمکش عروج پر پہنچ گئی‘ امریکی شہریوں کو خوف تھا عراق کیمیائی ہتھیاروں سے امریکا پر حملہ کر دے گا چنانچہ کولن پاﺅل نے دنیا کی تباہی کو عراق کی تباہی بنا دیا۔

اس نے امریکی نفسیات کے مطابق یہ کریڈٹ بھی امریکا کے کھاتے میں ڈال دیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی عراق کو (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ تباہ نہیں کر رہا امریکا کر رہا ہے اور آخر میں بل گیٹس کی باری تھی‘ وہ آیا‘ مسکرایا اور کیمروں کی طرف دیکھ کر بولا ”میرے پاس آپ کےلئے ایک اچھی خبر ہے اور دوسری بہت اچھی“ وہ رکا اور بولا ”اچھی خبر یہ ہے میں دنیا کے ان تین لوگوں میں شامل ہوں جنہیں اللہ تعالیٰ نے آپ تک پیغام پہنچانے کےلئے منتخب کیا‘ میں نے براہ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ ڈائیلاگ کیا۔

یہ اچھی خبر ہے اور بہت اچھی خبر یہ ہے‘ مائیکرو سافٹ نے وائے ٹوکے کا حل تلاش کر لیا ہے اور ہم یہ حل کل لانچ کردیں گے“ پورے امریکا نے کھڑے ہو کر تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ میں کہانی کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو ”وائے ٹوکے“ کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘ 31 دسمبر 1999ءتک ہمارے کمپیوٹرز میں تاریخ کی جگہ تین زیرو نہیں آ سکتے تھے‘ یہ ایک مشکل ایشو تھا اور اس ایشو کی وجہ سے پوری دنیا پریشان تھی کہ ہم جب سن 2000 میں جائیں گے تو ہمارے تمام کمپیوٹر جواب دے جائیں گے۔

بینک‘ دکاندار‘ شاپنگ مالز‘ موبائل فون سروس‘ ائیرلائین‘ ٹرین اور بس سروس غرض دنیا کی ساری انڈسٹریز شدید ٹینشن میں تھیں‘ یہ ساری انڈسٹریز رسیدیں جاری کرتی ہیں اور ہر رسید پر تاریخ درج ہوتی ہے جبکہ کمپیوٹر سسٹم یکم جنوری 2000ءکی تاریخ ہی درج نہیں کر سکتے تھے چنانچہ بحران صاف نظر آ رہا تھا‘ دنیا نے اس ایشو کا نام ”وائے ٹوکے“ رکھ دیا تھا‘ وائے سے مراد ائیر تھا۔

ٹو سے مراد دو کی سیریز کی صدی تھا اور کے سے ہزار مراد تھا‘ یہ 1999ءکی سب سے بڑی خبر تھی اور دنیا کا سارا میڈیا سارا دن ”وائے ٹوکے“ کا ورد کرتا رہتا تھا‘ دنیا اس مسئلے کے حل کےلئے بل گیٹس کی طرف بھی دیکھ رہی تھی‘ یہ روز اس سے پوچھتے کیا مائیکرو سافٹ ”وائے ٹوکے“ کا کوئی نہ کوئی حل نکال لے گا اور یہ کندھے اچکا کر آگے نکل جاتے تھے چنانچہ بل گیٹس نے وائے ٹوکے حل کرنے کا اعلان کر کے دنیا کو خوش کر دیا۔

ہم اب کہانی کے منطقی نتیجے کی طرف بڑھتے ہیں‘ بل کلنٹن سیاستدان تھے‘ سیاستدانوں کی زندگی اچھی اور بری خبروں کے درمیان بہتی رہتی ہے‘ یہ لوگ قوم کو ہمیشہ بری خبر سے پہلے اچھی خبر سناتے ہیں اور ان کی زیادہ تر اچھی خبریں جعلی ہوتی ہیں چنانچہ بل کلنٹن نے سیاستدانوں کی فطرت کے عین مطابق پہلے ایک اچھی خبر تخلیق کی‘ اس نے لوگوں کے اندر حب الوطنی کا جذبہ ابھارہ اور پھر انہیں بری خبر سنا دی‘ کولن پاﺅل فوجی تھا‘یہ 35سال امریکی فوج میں رہا اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کی حیثیت سے ریٹائر ہوا۔

فوجیوں کی نظر میں دشمن کی تباہی بہت اچھی خبر ہوتی ہے‘ یہ ہمیشہ چاہتے ہیں یہ دشمن کے مرنے کے بعد مریں خواہ یہ دشمن کی موت کے چند سیکنڈ بعد ہی کیوں نہ مر یں چنانچہ کولن پاﺅل کی نظر میں دنیا کی تباہی میں دو نقطے مضمر تھے‘ اللہ تعالیٰ گلف وار کی وجہ سے امریکا سے ناراض تھا اور یہ پورے امریکی معاشرے کو سزا دینا چاہتاتھا اور یہ اس کی نظر میں بری خبر تھی اور اچھی خبر یہ تھی امریکا کل عراق کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو بھی اپنے فوجی کریڈٹ میں درج کرنا چاہتا تھا جبکہ بل گیٹس سیلف میڈ بزنس مین ہیں اور سیلف میڈ بزنس مینوں کی زندگی میں بری سے بری خبر بھی بری خبر نہیں ہوتی۔

یہ برے سے برے حالات میں سے بھی ”اپارچیونٹی“ نکال لیتے ہیں چنانچہ اس نے قوم کو بتایا‘ میرے پاس دو اچھی خبریں ہیں‘ اچھی خبر اور بہت اچھی خبر‘ اچھی خبر اللہ تعالیٰ سے رابطہ تھا اور بہت اچھی خبر یہ تھی مائیکروسافٹ کل ”وائے ٹوکے“ کا حل دے دے گا‘ ہم اب اگر اس بہت اچھی خبر کی گہرائی میں جا کر دیکھیں تو ہمیں دو چیزیں ملیں گی‘ اول بل گیٹس نے سوچا ”وائے ٹوکے“ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے‘ دنیا نے کل ختم ہو جانا ہے‘ میں لوگوں کو ”ہم کل اس مسئلے کا حل لانچ کر دیں گے“ جیسی خوش خبری دے کر خوشی دے سکتا ہوں۔

اس خوش خبری سے کم از کم لوگوں کی زندگی کا آخری دن تو اچھا گزرسکے گا چنانچہ اس نے یہ خوش خبری دے کر پوری دنیا کو خوش کر دیا اور دوم بل گیٹس نے سوچا کل دنیا ختم ہو جائے گی‘ ہمارے پاس صرف ایک دن ہے لہٰذا میں پوری مائیکرو سافٹ کو دوسرے منصوبوں سے ہٹا کر صرف اور صرف ”وائے ٹو کے“ پر لگا دوں گا اور ہم انشاءاللہ رات تک یہ مسئلہ حل کر دیں گے‘ ہم رات بارہ بجے کے بعد نیا سافٹ ویئر لانچ کر دیں گے اور یوں لوگ قیامت کا دن طلوع ہونے سے پہلے ”وائے ٹو کے“ سے آگے نکل جائیں گے۔

آپ اپروچ کا فرق ملاحظہ کیجئے‘ سیاستدان نے دنیا کو موت کی سیدھی سادی نوید سنا دی‘ کولن پاﺅل کی نظر میں بری خبر کی اہمیت پہلے تھی اور وہ دشمن کی ہلاکت کو اچھی خبر سمجھ رہا تھااس نے پہلے بری خبر سنائی اور پھر دشمن کی موت کو اچھی خبر بنا کر پیش کیا جبکہ سیلف میڈ بزنس مین نے دنیا کی بری ترین خبر کو بھی اچھی اور بہت اچھی خبر میں تقسیم کیا اور اس نے دنیا کے آخری دنوں کو بھی دنیا کے سب سے بڑے مسئلے کے حل پر صرف کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ اس نے سوچا میں بہرحال لوگوں کو آخری دن بھی خوشی دوں گا‘ میں ان کے مسئلے حل کروں گا۔

زندگی صرف اور صرف اپروچ کا نام ہے‘ ہم اگر مسئلوں کو مثبت سمجھ لیں تو دنیا کے بڑے سے بڑے مسائل بھی وسائل میں تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن ہم نے اگر منفی ذہنیت کی عینک پہن رکھی ہو تو ہمیں اگر دنیا کے سارے وسائل بھی مل جائیں تو بھی یہ ہمیں مسائل دکھائی دیں گے‘ بارش کچھ لوگوں کےلئے گیت ہوتی ہے اور کچھ کےلئے کیچڑ‘ کیوں؟ آپ نے کبھی سوچا؟ یہ صرف اور صرف اپروچ کی بات ہے‘ منفی آنکھ کو بارش کیچڑ دکھائی دیتی ہے اور مثبت آنکھ اسے نغمہ‘ اسے گیت بنا دیتی ہے۔

یہ دنیا کیا ہے؟ یہ فیصلہ صرف اور صرف ہماری آنکھیں کرتی ہیں‘ ہمارے ماتھے سے نیچے اگر بل گیٹس کی آنکھیں ہیں تو پھر یہ آنکھیں قیامت کے دن کو بھی اچھی خبر اور بہت اچھی خبر بنا دیں گی‘ ہم دنیا کے آخری دن کو بھی دنیا کے سب سے بڑے مسئلے کے حل پر خرچ کریں گے لیکن اگر ہماری ناک کے دائیں بائیں منفی آنکھیں لگی ہیں تو پھر ہماری زندگی میں صرف خبریں ہوں گی‘ بری خبر اور بہت بری خبر‘ ہم پھر قیامت کے دن کو بھی ”دشمن پہلے مرے گا“ کا جشن سمجھ لیں گے‘ ہم کولن پاﺅل بن جائیں گے۔

میں ہمیشہ اپنے دوستوں سے کہتا ہوں آپ اپنی عینک بدل لیں پوری دنیا تبدیل ہو جائے گی‘ یہ جہنم سے جنت بن جائے گی لیکن کوئی میری بات نہیں مانتا‘ یہ لوگ بری خبروں میں جنم لیتے ہیں اور یہ مرنے تک بری خبر بنے رہتے ہیں‘ یہ قبر میں پہنچ جاتے ہیں لیکن یہ اپنی عینک نہیں بدلتے‘ یہ بل گیٹس نہیں بنتے۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…