نواز شریف کو نقصان ہو گا

19  اپریل‬‮  2018

چودھری حیات محمد خان ہمارے چودھری شجاعت حسین کے پردادا تھے‘ درمیانے درجے کے کاشتکار تھے‘ گجرات میں دریائے چناب کے کنارے چھوٹے سے گاﺅں ”نت وڑائچ“ میں رہتے تھے‘ سادہ طبیعت کے درویش انسان تھے‘ لوگوں کو کھانا کھلانے میں مشہور تھے‘ ان کا ایک قول آگے چل کر چودھری خاندان کی مہمان نوازی کی بنیاد بنا‘ وہ اپنے بچوں کو کہا کرتے تھے ”دیکھو کسی کو کھانا کھلانے سے کوئی غریب نہیں ہو جاتا“ بچوں

نے یہ بات پلے باندھ لی چنانچہ آج چودھری برادران کی پانچویں نسل ہے‘ ان کے گھر سے کوئی شخص کھانا کھائے بغیر واپس نہیں جا سکتا خواہ وہ ان کا جانی دشمن ہی کیوں نہ ہو‘ چودھری برادران کے گھر میں سب کچھ بند ہو سکتا ہے‘ لائیٹس تک بجھ سکتی ہیں لیکن کچن 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے‘ یہ بند نہیں ہوتااور یہ چودھری برادران کی قومی شناخت ہے۔چودھری شجاعت حسین نے ”سچ تو یہ ہے“ کے نام سے معرکة الآراءبائیو گرافی لکھی‘ مجھے یہ کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔”سچ تو یہ ہے“ محض ایک کتاب نہیں‘ یہ سیاست کی پانچ دہائیوں کی ایف آئی آر ہے‘ ہماری سیاست میں پچاس سال سے کیا ہو رہا ہے‘ یہ کتاب اس کا دستاویزی ثبوت ہے‘ میں یہ کتاب پڑھ کر تین نتائج پر پہنچا‘ایک‘ سیاست میں کوئی چیز مستقل اور حتمی نہیں ہوتی‘ دو‘ حکومتوں کے فیصلے ووٹ سے نہیں ہوتے اور تین‘ یہ کتاب پانامہ لیکس کے بعدمیاں نواز شریف کو شدید نقصان پہنچائے گی‘ یہ ان کے امیج کو مزید لے کر بیٹھ جائے گی‘ کیسے؟ آپ واقعات ملاحظہ کیجئے اور آخر میں فیصلہ کیجئے اس کتاب سے میاں نواز شریف کا کیا امیج سامنے آ رہا ہے‘مثلاً چودھری شجاعت حسین نے انکشاف کیا‘ جنرل ضیاءالحق نے 1977ءکے مارشل لاءکے بعد نوے دنوں میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا‘ میرے والد چودھری ظہور الٰہی لاہور سے بھٹو کے خلاف الیکشن لڑنا چاہتے تھے‘ ہم لاہور میں اپنے دفتر میں بیٹھے تھے‘ ہمارے ملازم نے بتایا‘ باہر

ایک نوجوان آیا ہے‘ یہ چودھری صاحب سے ملنا چاہتا ہے‘ والد صاحب نے پرویز الٰہی کو باہر بھجوا دیا‘ پرویز الٰہی نے دیکھا‘ ایک گورا چٹا نوجوان برآمدے میں بیٹھا ہے‘ نوجوان نے پرویز الٰہی کو اپنا وزیٹنگ کارڈ دے کر کہا‘مجھے میرے والد میاں محمد شریف نے چودھری ظہور الٰہی کی الیکشن مہم میں فنڈز دینے کےلئے بھیجا ہے‘ پرویز الٰہی نے جواب دیا ”ہم کسی سے فنڈ نہیں لیتے“ یوں یہ ملاقات ختم ہو گئی‘ وہ نوجوان میاں نواز شریف تھا‘ 1985ءکے غیر جماعتی الیکشنز کے بعد جنرل ضیاءالحق ملک اللہ یار خان‘ چودھری عبدالغفور اور مخدوم زادہ حسن محمود میں سے کسی ایک کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے

لیکن میاں نواز شریف نے خود ہی اپنا نام فلوٹ کرا دیا‘ ہمارا گروپ مضبوط تھا‘ ہم نے اپنا چیف منسٹر لانے کےلئے گھر میں میٹنگ بلوائی‘ میٹنگ میں خواجہ سعد رفیق کی والدہ بھی شامل تھیں‘ فیصلہ ہوا ہم پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار بنائیں گے‘ ہم نے رابطے شروع کر دیئے لیکن پھر ہمیں گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی نے گورنر ہاﺅس بلا لیا‘ بریگیڈیئر قیوم بھی وہاں موجود تھے‘ جنرل جیلانی نے ہمیں پیشکش کی‘ آپ اپنی مرضی کی وزارتیں‘ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے عہدے لے لیں اور وزارت اعلیٰ میاں نواز شریف کو دے دیں‘

ہم نے دو دن کا وقت مانگا‘ ہماری اگلی میٹنگ میاں محمد شریف کے ایمپریس روڈ کے دفتر میں ہوئی‘ بریگیڈیئر قیوم بھی موجودتھے‘ ہم میاں نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنانے پر رضا مند ہو گئے‘ میٹنگ کے آخر میں میاں شہباز شریف قرآن مجید لے آئے اور کہا‘ یہ قرآن مجید ضامن ہے‘ ہم آپ سے کوئی وعدہ خلافی نہیں کریں گے‘ ہم نے قرآن مجید کی ضمانت لینے سے انکار کر دیا‘ ہم نواز شریف کےلئے ایم پی ایز کی حمایت لینے کےلئے نکلے تو پہلی ملاقات انور علی چیمہ کے گھر ہوئی‘

چودھری انور علی کی تقریر کے بعد پرویز الٰہی نے تقریر کی‘ میاں نواز شریف کی تقریر کی باری آئی تو یہ گھبرا گئے اور پرویز الٰہی سے کہا ”آپ ہی میری طرف سے بات کر دیں“ ہم نے اصرار کیا آپ وزیر اعلیٰ بن رہے ہیں‘ آپ کو تقریر کرنی چاہیے‘ یہ اٹھے لیکن بمشکل ایک دو منٹ تقریر کر سکے‘ یہ شاید میاں نواز شریف کی پہلی تقریر تھی‘ میاں نواز شریف نے وزیراعلیٰ بننے کے بعد وہ تمام وعدے توڑ دیئے جن کےلئے شہباز شریف قرآن مجید لے کر آئے تھے‘ یہ ہمارا گروپ بھی توڑنے لگے‘

ہم گلہ کرتے تو شہباز شریف صفائیاں دینے لگتے‘ ہم جنرل جیلانی اور بریگیڈیئر قیوم سے شکایت کرتے اور وہ بے چارگی سے ہماری طرف دیکھنے لگتے‘ پرویز الٰہی تنگ آ کر صدر ضیاءالحق کے پاس چلے گئے‘ جنرل ضیاءالحق نے ہمیں نواز شریف کے خلاف عدم اعتماد لانے کا اشارہ دے دیا‘ ہم نے نواز شریف کو ہٹانے کی تیاری کر لی لیکن میاں صاحب نے عین وقت پر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل کو راضی کر لیا‘ جنرل حمید گل نے ضیاءالحق کو منا لیا اور یوں نواز شریف فارغ ہونے سے بچ گئے‘

چودھری شجاعت حسین نے انکشاف کیا‘ نواز شریف نے چند دن بعد ہمیں صلح کےلئے بلایا‘ بریگیڈیئر قیوم کے گھر ملاقات ہوئی‘ جنرل جیلانی بھی وہاں موجود تھے‘ نواز شریف اور شہباز شریف دونوں نے ہم سے معافی مانگی‘ نواز شریف نے دوبار پرویز الٰہی کا ماتھا چوما‘ شہبا زشریف نے دس منٹ میں دس بار پرویز الٰہی کو گلے لگایا اور یوں ہماری صلح ہوگئی لیکن یہ لوگ تھوڑے دن بعد دوبارہ پرانی روش پر چل پڑے‘ ہم نے جنرل جیلانی سے شکایت کی‘ وہ بھی ان سے نالاں ہو چکے تھے‘

جنرل جیلانی نے ہمیں کہا ”ہم آپ کے قصور وار ہیں‘ ہمیں اس معاملے میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا‘ ہمارے ساتھ بھی اب ان کا یہی رویہ ہے“ ہمارے اختلافات کی خبریں جنرل ضیاءالحق تک پہنچیں تو صدر نے نواز شریف کو راولپنڈی بلا کر حکم دیا‘ پرویز الٰہی اور ان کے ساتھیوں کو فوراً دوبارہ کابینہ میں شامل کرو‘ صدر کا لہجہ اتنا سخت تھا کہ نواز شریف کی آنکھوں میں نمی آگئی۔چودھری شجاعت حسین نے انکشاف کیا بے نظیر بھٹو 10 اپریل1986ءکو پاکستان واپس آئیں ‘

میاں نواز شریف محترمہ کو لاہور ائیرپورٹ سے گرفتار کرنا چاہتے تھے‘ ان کا کہنا تھا ”ہم محترمہ کو ائیر پورٹ ہی سے پک کر لیں گے“ لیکن وزیراعظم محمد خان جونیجو نے ڈانٹ کر کہا ”میاں صاحب وہ ایک بڑی پارٹی کی لیڈر ہیں‘ یہ آپ کیسی بات کررہے ہیں“ میاں نواز شریف 1988ءمیں لاہور ہائی کورٹ میں اپنی مرضی کا چیف جسٹس لگوانا چاہتے تھے‘ میں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا آپ سینئر ترین جج کو چیف لگا دیں‘ محمد خان جونیجو نے میری بات مان لی اور یوں جسٹس عبدالشکور سلام کو چیف جسٹس بنا دیا‘

میں اطلاع دینے کےلئے چیف جسٹس کے گھر گیا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا وہ دو کمروں کے معمولی سے گھر میں رہتے تھے‘ 1988ءکے الیکشنوں سے قبل میاںمحمد شریف ہمارے گھر آئے‘ ہماری والدہ سے ملے اور وعدہ کیا‘ میاں نواز شریف جب بھی وزیراعظم بنیں گے‘ پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ہوں گے‘ الیکشن ہوئے‘ ہمارا گروپ تگڑا تھا‘ بے نظیر بھٹو نے فاروق احمد لغاری کے ذریعے پرویز الٰہی کو پیش کش کی آپ وزیراعلیٰ بن جائیں‘ ہم آپ کی مدد کریں گے لیکن ہماری والدہ میاں محمد شریف کو زبان دے چکی تھیں

چنانچہ ہم نے دوسری بار میاں نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنوا دیا‘ بے نظیر بھٹو نے 1988ءمیں وزیراعظم بننے کے بعد جنرل ضیاءالحق کی فیملی کو آرمی چیف ہاﺅس خالی کرنے کا حکم دے دیا‘ جنرل ضیاءالحق کے خاندان کے پاس کوئی ذاتی گھر نہیں تھا‘ بیگم شفیقہ ضیاءنے نوازشریف سے رابطہ کیا‘ نواز شریف نے بیگم صاحبہ کو یہ مشورہ دے کر ٹال دیا ”آپ کرائے پر کوئی گھر لے لیں“ میری والدہ کو پتہ چلا تو انہوں نے ہم سے ویسٹریج راولپنڈی کا گھر خالی کرایا اور یہ گھر ضیاءالحق خاندان کے حوالے کر دیا‘

ہم نے اسلام آباد میں کرائے کا گھر لے لیا‘ ضیاءخاندان ساڑھے تین سال ہمارے گھر میں رہا‘یہ لوگ اپنا گھر تعمیرہونے کے بعد شفٹ ہوئے‘ چودھری شجاعت حسین نے انکشاف کیا‘ اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی)1990ءمیں میاں نواز شریف کووزیراعظم نہیں بنانا چاہتا تھا‘ آئی جے آئی کا خیال تھا وزیراعظم چھوٹے صوبے سے ہونا چاہیے لیکن آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ نے کور کمانڈرز کی میٹنگ میں یہ کہہ کر نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے دیا ” یہ سوچ غلط ہے کہ اکثریت حاصل کرنے کے باوجود کسی پنجابی کو وزیراعظم نہیں ہونا چاہیے‘

اگر نواز شریف کو مطلوبہ تعداد میں ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے تو ان کے وزیراعظم بننے میں کوئی حرج نہیں“ یوں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بن گئے‘ وزیراعظم بننے کے بعد میاں محمد شریف کے وعدے کے مطابق چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ ہونا چاہیے تھا لیکن ہمارے ساتھ تیسری بار دھوکہ ہو گیا‘ نواز شریف نے غلام حیدر وائیں کو کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بنا دیا‘ چودھری صاحب نے انکشاف کیا‘ جنرل آصف نواز کے بعد میاں نواز شریف اپنا آرمی چیف لانا چاہتے تھے‘

چودھری نثار کور کمانڈر راولپنڈی جنرل غلام محمد ملک اور جنرل مجید ملک جنرل رحم دل بھٹی کے حق میں تھے‘ میں نے مشورہ دیا ‘آپ میرے تیرے جنرل کے چکر میں نہ پڑیں‘ سینئر ترین جنرل کو چپ چاپ آرمی چیف بنا دیں لیکن یہ نہ مانے اور یوں صدر غلام اسحاق خان نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے جنرل عبدالوحید کاکڑ کو آرمی چیف بنا دیا‘ چودھری صاحب نے انکشاف کیا‘ میاں شہباز شریف 1993ءمیں پنجاب کے اپوزیشن لیڈر تھے‘

یہ وزیراعلیٰ منظور وٹو سے گھبرا کر کمر درد کا بہانہ کر کے لندن چلے گئے اور میاں صاحبان نے چودھری پرویز الٰہی کو اس مشکل وقت میں اپوزیشن لیڈر بنا دیا‘ لندن جانے سے پہلے میاں شہباز شریف نے پرویز الٰہی کو اپنے گھر بلایا‘ شہباز شریف کے وکیل آفتاب فرخ بھی وہاں موجود تھے‘ شہباز شریف نے جب پرویز الٰہی کو اپنی بیماری کے بارے میں بتایا تو آفتاب فرخ نے ہنس کر کہا ”میاں صاحب آپ کم از کم پرویز الٰہی کو تو سچی بات بتا دیں‘ آپ مقدمات سے بچنے کےلئے لندن بھاگ رہے ہیں“۔ (باقی کل ملاحظہ کیجئے)



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…