بقائی میڈیکل یونیورسٹی کراچی کی تعلیمی پہچان ہے‘ اس ادارے میں 1600 طلباء اور طالبات میڈیکل کے مختلف شعبوں کی تربیت لے رہے ہیں‘ یہ ادارہ نوجوانوں کو صرف طب کی جدید تعلیم نہیں دے رہا بلکہ یہ ان کی فکری اور نظریاتی پرورش بھی کررہا ہے‘ بقائی میڈیکل یونیورسٹی ہر سال دس‘ گیارہ اور بارہ اگست کو قائداعظم قومی کانفرنس منعقد کرتی ہے جس میں پاکستان کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی مختلف
شخصیات بانی پاکستان کی ذات اور شخصیت کے نرم اور دل کو چھو جانے والے گوشوں پر اظہار خیال کرتی ہیں‘ اگست 2007ء میں مجھے بھی قائداعظم کانفرنس کیلئے دعوت دی گئی تھی‘ میں 11 اگست کو کراچی پہنچا اور میں نے 12اگست کی کانفرنس میں شرکت کی‘ اس کانفرنس کی صدارت سندھ کے سابق گورنر اور سابق وزیر داخلہ جنرل معین الدین حیدر نے فرمائی جبکہ مقررین میں بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے روح رواں پروفیسر ڈاکٹر فرید الدین بقائی (مرحوم)‘ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید اظہر احمد‘ نامور صحافی سجاد میر‘ نامور بزنس مین یٰسین ملک‘ عبدالحسیب خان اور محترمہ ڈاکٹر زاہدہ بقائی شامل تھیں۔میں زندگی میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی حیات کے بارے میں بے شمار تقریبات میں شرکت کر چکا ہوں لیکن یہ تقریب ہر لحاظ سے ایک یادگار اور پر اثر محفل تھی‘ بالخصوص ڈاکٹر فریدالدین بقائی (مرحوم) اور ڈاکٹر سید اظہر احمد کی تقریروں نے میلا لوٹ لیا‘ان دونوں حضرات کو قائداعظم سے ملاقات کا اعزاز حاصل تھا چنانچہ انہوں نے جب اس دور کا نقشہ کھینچا تو حاضرین کی آنکھوں میں آنسو آگئے‘ میرا موضوع ”آئندہ پچاس برسوں میں پاکستان کے مسائل‘ وسائل اور مستقبل کی امیدیں“ تھا‘ یہ ایک طویل بحث اور لمبی تقریر تھی‘ میں نے اپنی معروضات کو تین حصوں میں تقسیم کیا‘پہلے حصے میں قائداعظم کا تصور پاکستان تھا‘ میں نے عرض کیا‘بڑی شخصیات کی عظمت کا اندازہ ان کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات سے ہوتا ہے اگر ہم
قائداعظم کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کا جائزہ لیں تو وہ اپنے عہد کے تمام اکابرین سے بلند نظر آتے ہیں مثلاً آپ قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں کو لیجئے‘پاکستان کی پہلی کابینہ کا اجلاس تھا‘ اے ڈی سی لیفٹیننٹ گل حسن نے پوچھا ”سر اجلاس میں چائے سرو کی جائے یا کافی“قائداعظم نے چونک کر سر اٹھایا اور سخت لہجے میں فرمایا ”یہ لوگ گھروں سے چائے کافی پی کر نہیں آئیں گے“ اے ڈی سی گھبرا گیا‘ آپ نے بات جاری رکھی ”جس وزیر نے چائے کافی پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے یا پھر واپس گھر جا کر پیئے‘
قوم کا پیسہ قوم کیلئے ہے وزیروں کیلئے نہیں“ اس حکم کے بعد جب تک قائداعظم برسر اقتدار رہے کابینہ کے اجلاسوں میں سادہ پانی کے سوا کچھ سرو نہ کیا گیا‘قائداعظم کے دور میں گورنر جنرل ہاؤس کیلئے ساڑھے 38 روپے کا سامان خریدا گیا‘ آپ نے حساب منگوا لیا‘ کچھ چیزیں محترمہ فاطمہ جناح نے منگوائی تھیں‘ حکم دیا ”یہ پیسے ان کے اکاؤنٹ سے کاٹے جائیں“ دوتین چیزیں ان کے ذاتی استعمال کیلئے تھیں‘فرمایا ”یہ پیسے میرے اکاؤنٹ سے لے لئے جائیں“ باقی چیزیں گورنر جنرل ہاؤس کیلئے تھیں‘
فرمایا ”ٹھیک ہے یہ رقم سرکاری خزانے سے ادا کردی جائے لیکن آئندہ احتیاط کی جائے“مجھے 1999ء میں گورنر ہاؤس سندھ میں یہ ڈائری دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ 1947ء میں برطانوی شاہ کا بھائی ڈیوک آف گلوسسٹر پاکستان کے دورے پر آرہا تھا‘ برطانوی سفیر نے درخواست کی ”آپ اسے ائیرپورٹ پر خوش آمدید کہہ دیں“ قائد اعظم نے فرمایا ”میں تیار ہوں لیکن جب میرا بھائی لندن جائے گا تو پھر برٹش کنگ کو بھی اس کے استقبال کیلئے ائیرپورٹ آنا پڑے گا“ ایک روز اے ڈی سی نے ایک وزیٹنگ کارڈ سامنے رکھا‘
آپ نے کارڈ پھاڑ کر پھینک دیا اور فرمایا ”اسے کہو آئندہ مجھے اپنی شکل نہ دکھائے“ یہ شخص آپ کا بھائی تھا اور اس کا قصور صرف اتنا تھا اس نے اپنے کارڈ پر نام کے نیچے ”برادر آف قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل آف پاکستان“ لکھوا دیا تھا‘یہ قائداعظم کی بیماری کے دن تھے‘ آپ زیارت میں مقیم تھے‘ زیارت میں سردی پڑ رہی تھی‘ کرنل الٰہی بخش نے نئے موزے پیش کردیئے‘ دیکھے تو بہت پسند فرمائے‘ ریٹ پوچھا‘ بتایا ”دو روپے“ گھبرا کر بولے ”کرنل یہ تو بہت مہنگے ہیں“
عرض کیا ”سر یہ آپ کے اکاؤنٹ سے خریدے گئے ہیں“ فرمایا ”میرا اکاؤنٹ بھی قوم کی امانت ہے‘ ایک غریب ملک کے سربراہ کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہیے“ موزے لپیٹے اور کرنل الٰہی بخش کو واپس کرنے کا حکم دے دیا‘ زیارت ہی میں ایک نرس کی خدمت سے متاثر ہوئے اور اس سے پوچھا ”بیٹی میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں“ نرس نے عرض کیا ”سر میں پنجاب سے ہوں‘ میرا سارا خاندان پنجاب میں ہے‘ میں اکیلی کوئٹہ میں نوکری کر رہی ہوں‘ آپ میری ٹرانسفر پنجاب کرا دیں“
اداس لہجے میں جواب دیا ”سوری بیٹی یہ محکمہ صحت کا کام ہے گورنر جنرل کا نہیں“آپ نے اپنے طیارے میں رائٹنگ ٹیبل لگوانے کا آرڈر دے دیا‘ فائل وزارت خزانہ پہنچی توخزانے کے ایک ڈپٹی سیکرٹری نے اجازت تو دے دی لیکن یہ نوٹ لکھ دیا ”گورنر جنرل اس قسم کے احکامات سے پہلے وزارت خزانہ سے اجازت کے پابند ہیں“ آپ کو معلوم ہوا تو وزارت خزانہ سے تحریری معذرت کی اور اپنا حکم منسوخ کردیا اور رہا پھاٹک والا قصہ تو کون نہیں جانتا گل حسن نے آپ کی گاڑی گزارنے کیلئے ملیر ریلوے کا پھاٹک کھلوا دیا تھا‘ آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا‘
پھاٹک بند کرانے کا حکم دیا اور فرمایا ”اگر میں ہی قانون کی پابندی نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا“۔یہ قائداعظم محمد علی جناح تھے اور یہ ان کا پاکستان تھا لیکن پھر ہم نے ترقی کرنا شروع کردی اور ہم نے پاکستان کو اس جگہ پہنچا دیا جہاں پھاٹک تو رہے ایک طرف ہمارے ملک میں سربراہ مملکت کے آنے سے ایک گھنٹہ پہلے سڑکوں کے تمام سگنل بند کردیئے جاتے ہیں‘ دونوں اطراف ٹریفک روک دی جاتی ہے اور جب تک شاہی سواری نہیں گزرتی اس وقت تک ٹریفک کھلتی ہے اور نہ ہی اشارے۔
اس کے بعد میں نے آج کے ”سرکاری پاکستان“ پر اظہار خیال کیا‘ میں نے عرض کیا آج ہم اس پاکستان میں رہ رہے ہیں جس میں وزیراعظم وزارت خزانہ کی اجازت کے بغیرجہانگیر ترین کوالیکشن ہرانے کیلئے لودھراں جیسے شہروں کیلئے دو دو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کردیتے ہیں‘ جس میں صدر اور وزراء اعظم کے احکامات پر سینکڑوں ہزاروں لوگ بھرتی کر لئے جاتے ہیں‘ اتنے ہی لوگوں کے تبادلے ہوتے ہیں‘ اتنے لوگ نوکریوں سے نکالے جاتے ہیں اور اتنے لوگوں کو ضابطے اور قانون توڑ کر ترقی دے دی جاتی ہے‘ جس میں موزے تو رہے ایک طرف بچوں کے پوتڑے تک سرکاری خزانے سے خریدے جاتے ہیں‘
جس میں آج ایوان صدر کابجٹ 95کروڑ اور وزیراعظم ہاؤس کا بجٹ 91 کروڑ ورپے ہے‘جس میں ایوان اقتدار میں عملاً بھائیوں‘ بھتیجوں‘ بھانجوں‘ بہنوں‘ بہنوئیوں اور خاوندوں کا راج رہا‘ جس میں وزیراعظم ہاؤس سے سیکرٹریوں کو فون کیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا ”میں صاحب کا بہنوئی بول رہا ہوں“ جس میں امریکہ کے نائب وزیر کے استقبال کیلئے پوری پوری حکومت ائیرپورٹ پر کھڑی دکھائی دیتی ہے اور جس میں چائے اور کافی تو رہی ایک طرف کابینہ کے اجلاس میں پورا لنچ‘ پورا ڈنر سرو کیا جاتا ہے اور جس میں ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے کچن ہر سال کروڑوں روپے دھواں بنا دیتے ہیں‘
یہ پاکستان کی وہ ترقی یافتہ شکل ہے جس میں اس وقت 20 کروڑ لوگ رہ رہے ہیں‘ جب قائداعظم گورنر جنرل ہاؤس سے نکلتے تھے تو ان کے ساتھ پولیس کی صرف ایک گاڑی ہوتی تھی‘ اس گاڑی میں صرف ایک انسپکٹر ہوتا تھا اور وہ بھی غیر مسلم تھا اور یہ وہ وقت تھا جب گاندھی قتل ہو چکے تھے اور قائداعظم کی جان کو سخت خطرہ تھا‘ قائداعظم اس خطرے کے باوجود سیکورٹی کے بغیر روز کھلی ہوا میں سیر کرتے تھے لیکن آج کے پاکستان میں وزیراعظم نااہل ہونے کے باوجود بلٹ پروف گاڑیوں‘ ماہر سیکورٹی گارڈز اور انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز کے بغیر دس کلومیٹر کا فاصلہ طے نہیں کرتے اور جس میں آج تمام میئرز‘ وزراء‘ ارکان اسمبلی اور کرنل لیول کے افسر سیکورٹی کے بغیر باہر نہیں نکلتے‘
افسوس ہم 70 برس میں اس ملک میں مساوات رائج نہیں کرسکے۔میں نے عرض کیا قوموں اور ملکوں کی ترقی کو ماپنے کے تین درجے ہوتے ہیں‘ قدرتی وسائل‘ تکنیکی وسائل اور انسانی وسائل‘ قدرت نے ہمیں وسائل سے مالا مال ایک شاندار ملک دیا تھا‘ اس میں صحرا سے لے کر پہاڑ اور سمندر سے لے کر میدان تک دنیا کے سارے وسائل موجود ہیں‘ ٹیکنالوجیکل وسائل میں بھی ہم دنیا سے کسی لحاظ سے پیچھے نہیں ہیں‘ پاکستان تیسری دنیا کا ملک ہونے کے باوجود ایٹمی طاقت ہے اور اس کے سائنس دان خلاء تک کو تسخیر کر چکے ہیں لیکن جہاں تک انسانی وسائل کا تعلق ہے تو بدقسمتی سے ہم نے اس شعبے میں کوئی ترقی نہیں کی‘
پاکستان میں آج سیاست سے لے کر سفارت تک اور فکرسے لے کر اخلاق تک تمام انسانی شعبے زوال پذیر ہیں‘ ہماری بدقسمتی دیکھئے اخلاقی‘ سیاسی اور نظریاتی لحاظ سے 1948ء کا پاکستان 1960ء کی نسل تک نہ پہنچا اور 1960 ء کی نسل نے 1980ء اور 1990 ء کی نسل کو 1960ء سے بدترین پاکستان دیا اور 1990ء کی نسل 2007ء اور 2017ء کی نسل کو اس سے کہیں برا ملک دے کر جارہی ہے‘ میں جب بھی سوچتا ہوں میں نے کسی نہ کسی دن مرنا ہے اور مرنے کے بعد قائداعظم کا سامنا کرنا ہے تو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے اور میں سوچتا ہوں جب میرے قائد مجھ سے پوچھیں گے تم نے میرے پاکستان کا کیا حشر کیا تو میں ان کو کیا جواب دوں گا‘ میں ان کا سامنا کیسے کروں گا؟۔ اے قائداعظم ہم تم سے شرمندہ ہیں۔