ہم سب لوگ ”مڈ ایج“ میں پہنچ کر دو چیزوں کا کثرت سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ ایک‘ ہمیں محسوس ہوتا ہے وقت کی رفتار میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے‘ ہم صبح اٹھتے ہیں اور جمائی لینے سے پہلے ہی شام ہو جاتی ہے‘ ہمارے پاس وقت کی اس قدر کمی ہو جاتی ہے کہ ہمیں ”ٹائم مینجمنٹ“ کیلئے بھی وقت نہیں ملتا‘ دہائیاں سالوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں‘ سال مہینے کے برابر ہو جاتے ہیں‘ مہینے دن بن جاتے ہیں اور دن چند گھنٹوں کا ہو جاتا ہے اور ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے وقت ریت بن گیا ہے اور یہ ریت ہماری مٹھی سے تیزی سے کھسک
رہی ہے یہاں تک کہ ایک دن ہم شیشے میں اپنی شکل دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں ایک اجنبی شخص دکھائی دیتا ہے‘ ہماری شکل تبدیل ہو چکی ہوتی ہے‘ ہمارے بال سفید ہو چکے ہوتے ہیں‘ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ چکے ہوتے ہیں اور نسیں رسیوں کی طرح تن کر ہماری گردن کے ساتھ لپٹی ہوتی ہیں اور ہم حیرت سے دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور خود سے سوال کرتے ہیں ہماری نوجوانی اور ہمارا لڑکپن کہاں گیا‘ میں نے تو ابھی دنیا دیکھی ہی نہیں تھی‘ یہ بڑھاپا کہاں سے آ گیا‘ میرا بیٹا اس مہینے 23 سال کا ہو جائے گا‘ یہ اس عمر میں چھ فٹ چار انچ لمبا ہے‘ میں اس کے پیچھے چھپ جاتا ہوں‘ میں پنجوں پر کھڑا ہو کر اس کے ماتھے پر پیار کرنے کوشش کرتا ہوں لیکن مشکل سے اس کی ناک تک پہنچتا ہوں‘ یہ اتنا بڑا کیسے ہو گیا؟ میں روز اسے دیکھتا ہوں اور اپنے آپ سے یہ سوال پوچھتا ہوں کیونکہ یہ مجھے کل کی بات لگتی ہے جب میں نے اسے پہلی بار اٹھایا تھا اور اس نے اپنے چھوٹے سے ہاتھ میں میری انگلی تھام لی تھی‘ یہ کب بڑا ہوا اور میں ادھیڑ عمری کے دور میں کب داخل ہوا؟ میرے دماغ کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔وقت کی رفتار میں یہ تیزی ہم سب کا ایشو ہے‘ ہم روز سوچتے ہیں ہماری زندگی میں ایک ایسا وقت بھی تھا جب دن لمبے‘ مہینے طویل اور سال صدیوں کے برابر ہوتے تھے‘ ہم کام کر کر کے تھک جاتے تھے لیکن شام نہیں ہوتی تھی‘ شام
ہوتی تھی تو رات اور شام کے درمیان وقت ٹھہر جاتا تھا‘ ہم بار بار وقت پوچھتے تھے اور ہمارے بزرگ ہمیں بتاتے تھے ابھی صرف نو بجے ہیں اور ہم کہتے تھے ”ابھی صرف نو بجے ہیں“ اور جب رات ہوتی تھی تو یہ رات ختم نہیں ہوتی تھی‘ ہم رات کے سناٹے میں کئی کئی بار جاگتے تھے‘ کئی کئی بار پانی پیتے تھے اور کئی کئی گھنٹے دیواروں پر لرزتے کانپتے ہیولوں کو جن بھوت بنتے دیکھتے تھے لیکن رات ختم نہیں ہوتی تھی‘ صبح ہوتی تھی تو یہ بھی ایک لمبی‘ نا ختم ہونے والی صبح ہوتی تھی‘
ہم اس صبح میں نماز بھی پڑھتے تھے‘ مارننگ واک کرتے تھے‘ نہاتے تھے‘ پراٹھوں کا ناشتا کرتے تھے اور ہمسائے کے بچوں کے ساتھ چہلیں بھی کرتے تھے لیکن اس کے باوجود سکول جانے کا وقت نہیں ہوتا تھا‘ سکول کا دورانیہ بھی لمبا ہوتا تھا‘ چالیس منٹ کا پیریڈ چالیس سال جتنا لمبا ہوتا تھا‘ ہم اس پیریڈ میں پڑھتے بھی تھے‘ شرارتیں بھی کرتے تھے‘ کاغذ کے جہاز بھی اڑاتے تھے‘ دوسروں کی جیب میں پانی بھی ڈالتے تھے‘ دوسروں کی قمیص ڈیسک کے ساتھ باندھتے بھی تھے‘
استاد کی مار بھی کھاتے تھے‘ مرغے بھی بنتے تھے‘ پی ٹی بھی کرتے تھے اور سکول سے بھی بھاگتے تھے ۔سکول سے چھٹی کے بعد بھی ایک لمبا دن ہمارا منتظر ہوتا تھا اور ہم اس لمبے دن میں قیلولہ بھی کرتے تھے‘ گراﺅنڈ میں کرکٹ اور ہاکی بھی کھیلتے تھے‘ دوسرے کے گھروں کے شیشے بھی توڑتے تھے‘ لوگوں کے گھروں میں تانک جھانک بھی کرتے تھے‘ گھر کا سودا سلف بھی لاتے تھے‘ سودے سے چار پیسے بھی اڑاتے تھے‘ دوستوں کے ساتھ کون آئس کریم بھی کھاتے تھے‘
بازار میں آوارہ بھی پھرتے تھے‘ لائبریری سے کتابیں بھی چوری کرتے تھے‘ یہ کتابیں پڑھتے بھی تھے‘ رات کو پی ٹی وی کے ڈرامے بھی دیکھتے تھے اور ابا جی کی مار بھی کھاتے تھے لیکن دن مکمل نہیں ہوتا تھا چنانچہ ہم اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کیلئے اپنی عمر میں خود ہی دو تین سال کا اضافہ کرلیتے تھے مگر اس کے باوجود چھوٹے کے چھوٹے ہی رہتے تھے لیکن اب سال مہینے ‘ مہینے دن اور دن گھنٹے بن چکا ہے‘ کیوں؟ ہمارے دماغ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ ہمارا دوسرا ایشو خوشی ہوتا ہے‘
ہم جوں جوں ”گروتھ“ کرتے ہیں‘ ہم زندگی میں آگے بڑھتے ہیں‘ ہم کامیاب ہوتے ہیں توں توں خوشی ہماری گرفت سے نکلتی چلی جاتی ہے‘ ایک وقت ہوتا ہے جب نیا رومال خریدنے کے بعد ہم خود کو دنیا کا امیر ترین شخص محسوس کرتے ہیں‘ ہم نئے جوتے‘ نئے کپڑے سرہانے رکھ کر سوتے ہیں‘ رات کو اٹھ اٹھ کر انہیں دیکھتے ہیں اور ہمارا دل خوشی سے لبریز ہو جاتا ہے‘ جب دس روپے کا نوٹ ایک لاکھ روپے کے برابر ہوتا ہے اور ہم بندر کا تماشا دیکھ کر یا ہم ریچھ کو ڈگڈگی کی ٹک ٹک ٹک پر ناچتے دیکھ کر دس‘ دس دن تک خوش رہتے ہیں‘
جب ہم بس میں سیٹ ملنے پر یوں خوش ہوتے ہیں جیسے ہم محمد علی کلے ہیں اور ہم نے جارج فورمین کو گھونسا مار کرچت کر دیا ہے‘ جب ہم ایک سو روپے میں مہینہ گزار لیتے تھے اور یہ رقم ہمیں ہزاروں لاکھوں خوشیاں دیتی تھی اور جب ہم کسی کی ایک جھلک دیکھ کر پنجوں پر ناچتے تھے اور سب کو بلا بلا کر بتاتے تھے ”وہ مجھے دیکھ کر ہنسی تھی“ یا ”ہائے اللہ آج انہوں نے مجھے دیکھ کر نفرت سے منہ نہیں پھیرا‘ میں صدقے‘ میں قربان“ لیکن پھر ایک ایسا وقت آ جاتا ہے جب ہمارے پاس سب کچھ ہوتا ہے‘
ہم لاکھوں کروڑوں کے مالک بن جاتے ہیں‘ ہم پوری پوری بس‘ سارے شہر کی پتنگیں‘ آئس کریم فیکٹری اور بالی اور ٹرو ساڈری کے جوتے اور کنالی اور باس کے سوٹس خرید سکتے ہیں اور وہ جھلک جو ہمیں پنجوں پر ناچنے پر مجبور کر دیتی تھی وہ ہماری بیوی یا ہمارا خاوند بن جاتی ہے اور ہمارے کھانے فریجوں کے دروازوں تک پیک ہو جاتے ہیں لیکن اس وقت ہمیں اپنا دل خوشی سے خالی محسوس ہوتا ہے‘ ہماری عید اور شام غریباں میں کوئی فرق نہیں رہتا‘
ہم خوشی کے ہر موقع پر کوئی خالی کون تلاش کرتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر اپنی جیبوں میں خوشی ڈھونڈتے رہتے ہیں‘ ہم قہقہے لگاتے‘ تالیاں بجاتے اور اچھلتے کودتے لوگوں میں خود کو اکیلا‘ اداس اور پریشان پاتے ہیں اور ہمیں اپنی اداسی‘ اپنی پریشانی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں سیٹھ محمد جمیل تم اداس کیوں ہو‘ علی معین میمن تم پریشان کیوں ہویا رضیہ خان تمہیں ساری ساری رات نیند کیوں نہیں آتی اور اس پوری دنیا میں کسی شخص کے پاس ہمارے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا‘
یہ وہ دو المیے ہیں جن سے ”مڈ ایج“ کے ننانوے فیصد لوگوں کو پالا پڑتا ہے اور میں بھی ان ننانوے فیصد لوگوں میں شامل ہوں‘ مجھے بھی عید کی خوشی کو محسوس کئے ہوئے اور وقت کو سرکنڈے کے پتوں کی طرح آہستہ آہستہ لرزتے دیکھے ہوئے صدیاں بیت گئی ہیں‘ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے میں شائد اس وقت غار میں رہتا تھا یا پھر دریائے نیل کے کنارے آباد تھا اور ابھی احرام مصر کے بننے میں ہزاروں سال باقی تھے اور اس وقت میرے پاس وقت ہی وقت تھا‘
میں دریا کے کنارے مہینوں بیٹھا رہتا تھا لیکن صبح سے شام نہیں ہوتی تھی اور رات صبح کی شکل دیکھنے کے انتظار میں بوڑھی ہو جاتی تھی لیکن اب میرے پاس وقت ہے اور نہ ہی خوشی۔ کبھی جامن کے درخت پر برستی ہوئی بوندیں میری روح تک کو گیلا کر دیتی تھیں اور آج میں طوفانی بارشوں میں بھی موم کے کاغذ کی طرح سوکھا رہتا ہوں‘ کیوں؟ اس کیوں کا جواب مجھے چند دن قبل امریکی یونیورسٹی کی ایک ریسرچ نے دیا‘ یونیورسٹی کی ریسرچ کے مطابق انسان کے پاس وقت اور خوشی صرف بچپن میں ہوتی ہے‘
اس کی وجہ تجسس اور محدود خواہشیں ہوتی ہیں‘ انسان کیلئے بچپن میں ہر چیز نئی ہوتی ہے اور یہ ہر چیز کو بڑے غور اور توجہ سے دیکھتا ہے اورغور اور توجہ وقت کی رفتار کو سست کر دیتی ہے‘ بچپن میں ہر بچہ بندر کے تماشے کیلئے رک جاتا ہے جبکہ بڑے توجہ دئیے بغیر اس کے قریب سے گزر جاتے ہیں‘ بچے کا یہ رکنا وقت کی رفتار کو آہستہ کر دیتا ہے‘ ہم آج بھی جب کوئی نئی چیز‘ نئی جگہ یا نیا مقام دیکھتے ہیں تو ہمارے وقت کی سپیڈ کم ہو جاتی ہے کیونکہ حیرت اور تجسس ہمارے وقت کے پاﺅں پکڑ لیتا ہے‘
اسی طرح نئے جوتے‘ نئے کپڑے اور مٹھائی کا ڈبہ بچے کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے اور جب یہ خواہش پوری ہوتی ہے تو اس کا دل خوشی سے لبریز ہو جاتا ہے لیکن جب ہم بڑے ہو جاتے ہیں تو ہماری خواہشوں کی فہرست مریخ تک وسیع ہو جاتی ہے چنانچہ آج بھی ہم اپنی زندگی میں حیرت اور تجسس کاعنصرلے آئیں اور اپنی خواہشوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرلیں اور ہر خواہش کو روزانہ پورا کریں تو ہمارا دن آج بھی مہینے جتنا لمبا اور ہمارا دل خوشیوں سے بھرسکتا ہے۔ مجھے یہ ریسرچ اچھی لگی اور میں نے سوچا ہم لوگ موم کے کاغذ بننے کی بجائے چھوٹے چھوٹے بچے کیوں نہیں بن جاتے‘ ہم بڑے قہقہے کے انتظار میں چھوٹے چھوٹے قہقہے کیوں نہیں لگاتے۔