ہم اگلے دن دوبارہ باسفورس پہنچ گئے‘ سردی انتہا کو چھو رہی تھی‘ ہم ناک صاف کرنے کیلئے ہاتھ کوٹ سے باہر نکالتے تھے تو ہاتھ ناک تک پہنچتے پہنچتے جم جاتا تھا‘ ہمارے نتھنوں سے مسلسل دھواں نکل رہا تھا‘ باسفورس کے پانیوں پر سردی کے سفید پرندے اتر رہے تھے اور اڑ رہے تھے‘ یہ پانی پر اترتے تھے تو باسفورس کی چادر پر سلوٹیں پڑتی تھیں اور یہ اڑتے تھے تو پانی کا ارتعاش پورے ماحول کو ہلا کر رکھ دیتا تھا‘
ہم دونوں کنارے کی ساتھ ساتھ چل رہے تھے‘ وہ واکنگ سٹک کو ہوا میں تلوار کی طرح لہرا رہے تھے اور میں چپ چاپ ان کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا‘ وہ بینچ تک پہنچے‘ جیب سے رومال نکالا‘ بینچ پر گری برف ہٹائی‘ بینچ صاف کیا‘ بیٹھے اور مجھے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کر دیا‘ میں فوراً بیٹھ گیا‘ پروفیسر صاحب نے گہرا سانس لیا‘ ان کے منہ اور نتھنوں سے دھوئیں کی لمبی لکیر نکلی‘ وہ لکیر کے غائب ہونے کا انتظار کرتے رہے‘ لکیر غائب ہو گئی تو وہ بولے ’’ایک مولوی صاحب تھے‘ وہ گاؤں میں رہتے تھے‘ گاؤں دریا کے پار تھا‘ لوگوں کو دریا پار کرنے میں بڑی دقت ہوتی تھی‘ مولوی صاحب ایک بار شہر جانے کیلئے گھر سے نکلے‘ دریا پر پہنچے اور کشتی کا انتظار کرنے لگے‘ مولوی نے وہاں اچانک ایک عجیب منظر دیکھا‘ ایک نوجوان آیا‘ اللہ کا نام لیا‘ دریا میں پاؤں ڈالے اور وہ چلتے چلتے دریا پار کر گیا‘ مولوی صاحب اس معجزے پر بہت حیران ہوئے‘ انہوں نے نوجوان کو آواز دی اور اونچی آواز سے پوچھا‘ برخوردار تم نے یہ آرٹ کہاں سے سیکھا‘ نوجوان نے قہقہہ لگایا‘ مولوی صاحب کی طرف اشارہ کیا اور بولا جناب میں نے یہ فن آپ سے سیکھا تھا‘ مولوی صاحب حیران ہو کر بولے بیٹا لیکن میں تو یہ فن نہیں جانتا‘میں تمہیں کیسے سکھا سکتا ہوں‘ نوجوان نے دوبارہ قہقہہ لگایا اور بولا جناب آپ نے دو سال قبل جمعہ کے خطبے میں فرمایا تھا
اگر انسان کا ایمان مضبوط ہو تو یہ اللہ کا نام لے کر پانی پر بھی چل سکتا ہے‘ میں نے آپ کی بات پلے باندھ لی‘ میں اس دن سے اللہ کا نام لیتا ہوں‘ پانی میں پاؤں ڈالتا ہوں اور چلتے چلتے دریا پار کر جاتا ہوں‘ یہ سن کر مولوی صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولے‘ برخوردار تم خوش نصیب ہو اور میں بدنصیب‘ تمہیں ایک تقریر نے مومن بنا دیا اور میں پوری زندگی پورے اسلام سے ایمان تلاش کرتا رہا‘ تم عظیم اور میں بدنصیب ہوں‘‘ وہ رکے‘
لمباس سانس لیا اور نتھنوں سے نکلنے والی دھوئیں کی لکیر غائب ہونے کا انتظار کرتے رہے‘ لکیر ہوا میں تحلیل ہو گئی تو بولے ’’ہم لوگ بدنصیب ہیں‘ ہم یقین کے بغیر دعائیں کرتے ہیں چنانچہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں‘ آپ دنیاوی اور دینی زندگی کا پہلا اصول نوٹ کرو‘ دعا سے پہلے اللہ کی ذات پر یقین پیدا کر لو‘ تمہاری ہر دعا قبول ہو جائے گا‘ وہ رکے‘ سانس لیاا ور بولے ’’صوفی کی دعا کیوں قبول ہو جاتی ہے؟ کیونکہ اسے اللہ کی ذات پر یقین ہوتا ہے اور اللہ اپنی ذات پر یقین کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا لہٰذا زندگی کا پہلا اصول اللہ کی ذات پر مکمل یقین ہے‘
جو کرتا ہے خدا کرتا ہے اور خدا کبھی غلط نہیں کرتا‘ یہ بات پلے باندھ لو تمہاری زندگی آسان ہو جائے گی‘‘ وہ رکے‘ سانس لیا اور بولے ’’زندگی گزارنے کا دوسرا بہترین اصول بولنے سے قبل سننا ہے‘ آپ اگر دس فقرے بولنا چاہتے ہو تو آپ کم از کم دو ہزار فقرے سنو‘ آپ دن میں دس گھنٹے سنو اور ایک گھنٹہ بولو‘ انسان زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے‘ آپ جوں ہی بولتے ہیں آپ دوسروں کے سامنے ظاہر ہو جاتے ہیں‘ آپ اگر اپنے آپ کو چھپانا چاہتے ہیں تو آپ زبان کو قابو رکھنا سیکھ لیں‘ آپ لوگوں کے درمیان رہ کر بھی ان سے چھپے رہیں گے‘
آپ اگر اچھی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ دیوار پر لکھ لیں میں بولنے سے پہلے سنو گا اور جب تک دوسرا آدمی مجھ سے بولنے کیلئے نہیں کہے گا میں خاموش بیٹھا رہوں گا‘ آپ کی زندگی بہت اچھی گزرے گی‘‘ وہ رکے‘ کوٹ سے ہاتھ باہر نکالے‘ رگڑے‘ گرم کئے‘ ان پر پھونک ماری اور بولے ’’ہمارے 80 فیصد مسائل کی جڑیں معیشت کی زمین میں پیوست ہوتی ہیں‘ ہم میں سے زیادہ تر لوگ کمانے سے قبل خرچ کر دیتے ہیں یا پھر یہ کمانے کے فوراً بعد خرچ کرنا شروع کر دیتے ہیں چنانچہ یہ لوگ مسائل میں الجھ جاتے ہیں‘
اچھی زندگی گزارنے کا تیسرا اصول خرچ کرنے سے قبل کمانا ہے‘ آپ پہلے کمائیں اور پھر خرچ کریں‘ آپ پوری زندگی خوش حال رہیں گے‘ میں استنبول کے ایک خوش حال خاندان کو جانتا ہوں‘ یہ لوگ چار نسلوں سے مطمئن اور متمول ہیں‘ میں ایک بار خاندان کے چھوٹے بیٹے سے ملا اور اس سے خاندان کے اطمینان اور خوشحالی کی وجہ پوچھی‘ نوجوان نے جواب دیا‘ ہمارے پردادا نے سو سال قبل دو اصول بنائے تھے‘ ہم لوگ سال میں دس ماہ کمائیں گے اور دو ماہ خرچ کریں گے اور ہم لوگ ہر صورت اپنی آمدنی کا 25 فیصد بچا کر رکھیں گے‘
ہمارے پردادا نے یہ اصول اپنے بچوں کو سکھا دیئے‘ ہمارے دادا نے ہمارے والد اور ہمارے چچاؤں کی پرورش اس عادت میں کی اور ہمارے والد نے ہمیں پہلے دن سے اس ٹریننگ میں ڈال دیا چنانچہ ہم چار نسلوں سے مطمئن‘ خوش حال اور مسرور زندگی گزار رہے ہیں‘ میں نے نوجوان سے پوچھا‘ کیا آپ لوگ سال میں دس ماہ کوئی چیز نہیں خریدتے‘ وہ ہنس کر بولا‘ ہم انسان بازار سے ضرورت اور آسائش خریدتے ہیں‘ انسان کو ضرورتیں کبھی غریب نہیں بناتیں‘ ہم ہمیشہ آسائش کے ہاتھوں لٹتے ہیں‘ ہمارے خاندان کے لوگ سال میں دس ماہ صرف ضرورت کی اشیاء خریدتے ہیں‘
ہم سال بھر آسائشوں کی فہرست بناتے رہتے ہیں‘ ہم نومبر کے مہینے میں خریداری شروع کرتے ہیں اور 31 دسمبر تک فہرست کے مطابق اشیاء خریدتے رہتے ہیں‘ میں نے اس سے پوچھا سال کے آخری دو ماہ ہی کیوں؟ وہ ہنس کر بولا‘ ہمارے پاس وقت تک وافر پیسے جمع ہو چکے ہوتے ہیں‘ ملک میں نومبر دسمبر میں سیلز بھی شروع ہو جاتی ہیں اور دنیا کے زیادہ تر برانڈز اپنے نئے ماڈل بھی ان دو مہینوں میں متعارف کراتے ہیں چنانچہ ہم جی بھر کر خریداری کرتے ہیں اور پورا سال اس خریداری کو انجوائے کرتے ہیں‘
ہم اپنی اس عادت کی وجہ سے کبھی دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور نہ ہی کسی سے ادھار لیتے ہیں‘ میں نے اس خاندان سے سیکھا‘ آپ اگر کما کر خرچ کرنا سیکھ لیں تو آپ کبھی محتاج نہیں ہوتے‘ یہ کامیاب اور مطمئن زندگی کا تیسرا اصول ہے‘‘۔ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور باسفورس کی طرف دیکھنے لگے۔
باسفورس پر دھند ہلکورے لے رہی تھی‘ یوں محسوس ہوتا تھا آسمان پانی پر اتر آیا ہے اور یہ اب ہوا کی دھن پر دائیں بائیں رقص کر رہا ہے‘ وہ دیر تک یہ رقص دیکھتے رہے‘ وہ پھر میری طرف مڑے اور بولے ’’ہم میں سے زیادہ تر لوگ کوشش سے پہلے ہمت ہار بیٹھتے ہیں‘ یہ رویہ غلط ہے‘ آپ دل چھوڑنے سے قبل کوشش کریں‘ آپ کی زندگی اچھی ہو جائے گی‘ میں بیلجیئم میں ایک شخص سے ملا‘ وہ شخص زندگی میں کبھی ناکام نہیں ہوا تھا‘ میں نے اس سے وجہ پوچھی‘ اس نے جواب دیا‘
میں نے زندگی میں کبھی کوشش ترک نہیں کی‘ میں کوشش کرتا رہتا ہوں‘ میں کوشش کرتا رہتا ہوں یہاں تک کہ میں کامیاب ہو جاتا ہوں‘ میں نے اس سے سیکھا ہمت نہ ہاریں‘ کوشش جاری رکھیں‘ آپ بالآخر کامیاب ہو جائیں گے چنانچہ اچھی زندگی کیلئے ہمت ہمارنے سے قبل کوشش‘ کوشش اور کوشش کو اصول بنا لیں‘ دنیا آپ کیلئے جنت بن جائے گی‘‘ وہ رکے‘ قہقہہ لگایا اور بولے ’’ہم لوگ بھی عجیب ہیں‘ ہم زندگی بھر موت سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں‘ ہم دنیا بھر کے ڈاکٹروں سے طویل عمری کے فارمولے جاننے کی سعی بھی کرتے رہتے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود مر جاتے ہیں‘ موت کسی نہ کسی راستے‘ کسی نہ کسی ذریعے ہم تک پہنچ جاتی ہے‘ ہم میں سے کوئی شخص اس سے بچ نہیں پاتا‘
ہم موت سے بچنے کی اس دوڑ میں زندہ رہنا بھول جاتے ہیں‘ ہم میں سے زیادہ تر لوگ جیئے بغیر ہی مر جاتے ہیں‘ یہ بے چارے زندگی کو زندگی کی طرح گزار ہی نہیں پاتے چنانچہ اچھی زندگی کا پانچواں اصول ہے مرنے سے پہلے جی بھر کر جی لیں‘ یہ زندگی عظیم عطیہ ہے‘ یہ عطیہ اللہ تعالیٰ صرف ایک بار عطا کرتا ہے‘ موت ہر انسان کو آتی ہے لیکن زندہ کوئی کوئی رہتا ہے اور آپ کو ان کوئی کوئی لوگوں میں شمار ہونا چاہیے‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ فضا میں بھی ایک ٹھہراؤ سا آگیا‘
ہم تھوڑی دیر اس ٹھہراؤ کا حصہ بنے رہے‘ پھر انہوں نے جھری جھری سی لی اور بولے ’’آپ لکھاری ہیں‘ میں آپ کو اچھی زندگی کا چھٹا اصول بتاتا ہوں‘ یہ اصول بنیادی طور پر لکھاریوں کیلئے ہے لیکن عام لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ آپ لکھنے سے پہلے سوچیں‘ آپ جتنا گہرا سوچیں گے آپ کی تحریر میں اتنی ہی گہرائی آئے گی اور آپ جتنا اچھا سوچیں گے آپ کی نگارشات بھی اتنی ہی اچھی ہو جائیں گی‘ آپ اگر لکھاری نہیں ہیں تو آپ ہر قدم اٹھانے سے قبلے سوچنے کی عادت ڈال لیں‘ آپ سوچیں‘ بار بار سوچیں اور پھر قدم اٹھائیں‘ آپ مسائل سے بچتے چلے جائیں گے‘
یہ اچھی زندگی کے چھ اصول ہیں‘ دعا سے قبل اللہ پر یقین کریں‘ بولنے سے قبل سنیں‘ خرچ کرنے سے قبل کمائیں‘ ہمت ہارنے سے قبل کوشش کریں‘ مرنے سے قبل زندہ رہیں اور لکھنے سے قبل سوچیں‘ آپ شاندار اور قابل رشک زندگی گزاریں گے‘‘ باسفورس پر سرد ہوائیں چلنے لگیں‘ پروفیسر صاحب نے کوٹ کے کالراٹھائے‘ ہاتھ رگڑے اور اٹھ کھڑے ہوئے‘ میں بھی اٹھا اور ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
ہم واپسی کیلئے تیار ہو چکے تھے۔