وہ 75 سال کے ” بابے “ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت گر چکے تھے‘ کانوں سے آوازیں نہیں آتی تھیں‘ وہ سونگھنے ‘ چکھنے اور چھونے کی حسوں سے بھی محروم ہو چکے تھے‘ ان کے دونوں گھٹنوں میں بھی درد رہتا تھا‘ان کی بینائی سے یک سوئی بھی ختم ہو چکی تھی اور ان کے جسم میں بھی لرزہ طاری رہتا تھا‘ وہ پانچ برس سے صاحب فراش تھے‘ یہ پانچ برس انہوں نے گھر میں گزار دیئے‘ سردیاں آتی تھیں تو نوکر ان کی کرسی دھوپ میں رکھ دیتے تھے اور وہ سارا دن لان میں اونگھتے رہتے تھے‘
گرمیوں میں وہ اے سی کے سامنے بیٹھ جاتے تھے اور بہار کے موسم میں ان کے کمرے کی کھڑکیاں کھول دی جاتی تھیں اور وہ شیشے کے پاس بیٹھ کر کیاریوں میں لرزتے کانپتے پھول دیکھتے رہتے تھے‘ ان کی اہلیہ کو ساتھ چھوڑے دس برس ہو چکے تھے‘ ان کے بچے سعادت مند تھے مگر اپنے اپنے کاروبار میں الجھے ہوئے تھے ‘ ان کے پاس باباجی کےلئے وقت نہیں تھا‘ وہ بھی اپنے بچوں کی مجبوریوں کو سمجھتے تھے‘ ان کا اپنا فلسفہ تھا کاروبار اس وقت تک کاروبار نہیں بنتا جب تک انسان پوری طرح اس میں جذب نہ ہو جائے‘ وہ جانتے تھے کسی اچھے اور کامیاب بزنس مین کے پاس فیملی‘ دوست احباب اور ماں باپ کےلئے وقت نہیں ہوتا چنانچہ وہ اپنے بچوں سے کبھی شکوہ نہیں کرتے تھے لیکن ان کے دل میں کسی نہ کسی جگہ زندگی سے شکایت بھی موجود تھی‘ وہ اکثر سوچا کرتے تھے میں نے 70 سال ”ایکٹو“ زندگی گزاری‘ چھوٹی سی دکان کو چھ فیکٹریوں اور تین ہزار ایک سو بارہ روپے کے اکاﺅنٹ کو دو ارب 80 کروڑ 40 لاکھ تین سو 90 روپے میں تبدیل کیا لیکن پھر جوں ہی میری زندگی نے 70 سال کی دہلیز پر قدم رکھا میری ساری ” ایکٹویٹی“ یک دم ختم ہوگئی اور میں بے کار ہو کر گھر بیٹھ گیا ‘ کیوں؟ وہ اکثر سوچا کرتے تھے اگر قدرت کومیری ضرورت نہیں تو پھر میں زندہ کیوں ہوں؟ میں مر کیوں نہیں جاتا؟
انہیں ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ملتا تھا لیکن پھر پچھلے دسمبر کی دھوپ آئی‘ وہ لان میں بیٹھے‘ عصر کے وقت انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا اور اپنے اللہ سے پوچھا ” یا پروردگار میں کیوں زندہ ہوں“ اور یہ وہ وقت تھا جب اللہ کا جواب گمان بن کر ان کے دل پر اترگیا‘ انہوں نے خوشی سے ہاتھ بھینچے‘ اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور سہارے کے بغیر اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے‘وہ دن ان کی نئی زندگی کا پہلا دن ثابت ہوا۔
وہ اگلی صبح اٹھے ‘ شیو بنائی‘سوٹ پہنا‘
خوشبو لگائی اور ڈرائیور کے ساتھ دفتر پہنچ گئے‘ انہیں دفتر میں دیکھ کر تمام لوگ حیران رہ گئے‘ انہوں نے دفتر میں ایک چھوٹا سا کیبن لیا‘ اس میں بیٹھے اور اپنے ذاتی اکاﺅنٹ کی تفصیلات طلب کر لیں‘ ان کے اکاﺅنٹ میں 22 کروڑ روپے تھے‘ انہوں نے کمپنی کے انجینئرز کو بلوایا‘ ٹھیکے داروں اور نقشہ نویسوں کو طلب کیا اور شہر کے مضافات میں ایک چھوٹی سی فیکٹری لگانے کا حکم دے دیا‘ یہ فیکٹری ایسی جگہ لگائی جارہی تھی جہاں کچی آبادیوں کی بھر مار تھی‘
جہاں بجلی‘ سیوریج‘ ٹیلی فون‘ سڑک اور گیس تک نہیں تھی‘ باباجی کا یہ فیصلہ بم بن کر گرا اور کمپنی کے عہدیداروں سمیت ان کے تمام بچوں کو پریشان کر گیا‘ ان لوگوں کا خیال تھا باباجی سٹھیا گئے ہیں‘ یہ بات زیادہ غلط نہیں تھی کیونکہ پوری دنیا میں فیکٹریاں لگانے کے چند پکے اصول ہیں‘ دنیا کا ہر صنعت کار ایسی جگہ فیکٹری لگاتا ہے جہاں سڑک ہو‘ جہاں بجلی‘ گیس‘ ٹیلی فون اور سیوریج لائنیں ہوں اور جہاں کے لوگ مہذب ہوں‘ پاکستان جیسے ممالک میں صنعت کار کچی آبادیوں کے قریب سرمایہ کاری نہیں کرتے‘
کچی آبادیوں میں سیکورٹی ‘ لاءاینڈ آرڈر اور سہولتوں کا فقدان ہوتا ہے اور یہ تینوں چیزیں سرمایہ کاری کی دشمن ہیں‘ باباجی نے خود بھی زندگی بھر ان اصولوں کا خیال رکھا تھا‘ وہ کبھی گیلی زمین پر پاﺅں نہیں رکھتے تھے اوریہ عمر بھر محفوظ جگہوں پر سرمایہ کاری کرتے رہے چنانچہ ایک ایسا شخص جسے لوگ زیرک اور چالاک سمجھتے ہوں وہ اگر اچانک اپنے اصولوں کی خلاف ورزی شروع کردے اور 22 کروڑ روپے کی خطیر رقم بے وقوفی کے تنور میں ڈال دے تو لوگ یقینا اس کی ذہنی حالت کے بارے میں مشکوک ہو جائیں گے لہٰذا لوگ بابا جی کی ذہنی حالت کے بارے میں بھی خدشات کا شکار ہو گئے۔
میں باباجی اور ان کے بیٹے کامشترکہ دوست تھا‘ باباجی میری بہت عزت کرتے تھے ‘ ان کا بیٹا میرے پاس آیا‘ اس نے مجھے ساری کہانی سنائی اور مجھے باباجی کو سمجھانے کی ذمہ داری سونپ دی‘ میں اگلے دن باباجی کے پاس حاضر ہوگیا‘ باباجی نے بڑے صبر سے میرے سارے اعتراضات سنے اور آخر میں ایک بلند و بانگ قہقہہ لگایا‘ میں باباجی کی ذہنی حالت کے بارے میں مکمل طور پر مشکوک ہوگیا‘ باباجی دیر تک ہنستے رہے اور آخر میں سنجیدہ ہو کر بولے ” میں فیکٹری لگانا چاہتا ہوں‘ تم لوگوں کو اس میں کیا تکلیف ہے“ میں نے عرض کیا ” دو تکلیفیں ہیں“ وہ بولے ” کیا “ میں نے جواب دیا ” اول‘ یہ آپ کے کام کی عمر نہیں ‘ دوم‘ آپ غلط جگہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں“
انہوں نے قہقہہ لگایا اور مجھ سے دو سوال پوچھے‘ انہوں نے پوچھا ”اگر میں کام کرنے کے قابل نہیں ہوں تو پھر میں زندہ کیوں ہوں“ میں نے ان کے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی لیکن مجھ سے کوئی خاص جواب نہ بن پایا‘ انہوں نے دوسرا سوال پوچھا ” انسان کو زندگی گزارنے کےلئے کتنا سرمایہ چاہیے“ میں نے اس کا جواب دینا شروع کردیا‘ ہم دیر تک انسان کی مختلف ضرورتوں اور ان ضرورتوں پر آنے والے خرچ کا تخمینہ لگاتے رہے‘ ہم نے ایک گھنٹے میں تخمینہ لگایا ‘ پاکستان جیسے ملک میں مڈل اور اپر مڈل کلاس کا ایک شخص ذاتی زندگی پراوسطاً 70 سے 80 لاکھ روپے خرچ کرتا ہے‘
باباجی مسکرائے اور انہوں نے پوچھا ” اس کا مطلب ہے اگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کو 80 لاکھ روپے سے زیادہ رقم دیتا ہے تو یہ سرمایہ زائد ہے“ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا‘ وہ بولے ” اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو چیز تمہاری ضرورت سے زائد ہووہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دو“ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ بولے ” اب تم ایک اور پہلو بھی دیکھو‘ اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی گزارنے کےلئے بے شمار صلاحیتیں دیتا ہے‘ یہ ہمیں جسم‘ دماغ اور روح دیتا ہے‘ یہ ہمیں وژن‘ سوچ اور حوصلہ دیتا ہے‘ یہ بعض لوگوں کو بعض لوگوں کے مقابلے میں زیادہ جرا¿ت‘ زیادہ بہادری‘
زیادہ ذہانت اور زیادہ معاملہ فہمی دیتا ہے اور یہ بعض لوگوں کو ایک روپے سے دس ہزار روپے کمانے کا ہنر دیتا ہے‘ یہ سارے ہنر‘ یہ ساری صلاحیتیں بھی بعض اوقات ہماری ضرورت سے زائد ہوتی ہیں“ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولے ” اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی بھی بخشتا ہے اور یہ زندگی بھی بعض اوقات ہماری ضرورت سے زائد ہوتی ہے مثلاً تم مجھے دیکھو‘ میں نے اپنے سارے کام ساٹھ سے ستر برس کے درمیان پورے کرلئے اور اس کے بعد کی زندگی مجھے زائد سی محسوس ہوتی تھی“ میں خاموش رہا‘ وہ بولے ” میں تمہیں اب بتاتا ہوں انسان کا زائد سرمایہ‘
زائد صلاحیتیں اور زائد زندگی اللہ اور اس کے بندوں کی امانت ہوتی ہے اور ہم اگر یہ زائد زندگی‘ یہ زائد صلاحیتیں اور یہ زائد سرمایہ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ہم اللہ کے گنہگار ہو جاتے ہیں“ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولے ” مجھے اچانک ایک دن معلوم ہوا میرے پاس بھی زائد زندگی‘ زائد صلاحیتیں اور زائد سرمایہ ہے چنانچہ مجھے مرنے سے پہلے یہ ساری امانتیں اللہ کے بندوں کو سونپ دینی چاہئیں“ مجھے یہاں ان کے فلسفے میں تھوڑا سا جھول محسوس ہوا چنانچہ میں نے فوراً ” ری ایکٹ “ کیا‘ میں نے عرض کیا ” لیکن اللہ کی امانت لوٹانے کےلئے فیکٹری لگانا تو ضروری نہیں “
انہوں نے قہقہہ لگایا اور بولے ” مجھے یقین تھا‘ تم مجھ سے یہ ضرور پوچھو گے‘ بے وقوف بچے اللہ نے مجھے فیکٹریاں لگانے اور کاروبار کرنے کی صلاحیت دے رکھی ہے‘ میں اسی کام کا ماہر ہوں‘ میں اللہ کے بندوں کو صرف اسی صلاحیت میں پارٹنر کرسکتا ہوں‘ میں اپنی آخری فیکٹری شہر کے سب سے محروم علاقے میں اس لئے لگا رہا ہوںکہ اس فیکٹری سے علاقے کے بے روزگاروں کو روزگار بھی ملے گااورانہیں سڑک‘ بجلی‘ گیس اور پانی بھی۔
میں ایسا فارمولہ بنا رہا ہوں جس سے میری فیکٹری کا آدھا منافع کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کی فلاح وبہبود پر خرچ ہو اورباقی اس علاقے کے لوگوں کے معیار زندگی پر لگے‘ یہ فیکٹری علاقے میں سکول‘ کالج اور ہسپتال بھی بنائے گی اور یہ لوگوں کو ہنر بھی سکھائے گی اس سے اس سارے علاقے کا معیار زندگی بلند ہو جائے گا“ وہ خاموش ہو گئے‘ میں بھی خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ ذرا دیر رک کر بولے ” ہمیں فلاح کے صرف وہ کام کرنے چاہئیں جس کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں صلاحیت دے رکھی ہے‘
ماہر تعلیم کو تعلیم‘ کھلاڑی کو کھیل‘ صنعت کار کو صنعت‘ ڈاکٹر کو طب‘ دکاندار کو دکان اور قلم کار کو قلم کا صدقہ دینا چاہیے‘ ہم سب لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی دی صلاحیتوں‘ زندگی اور سرمائے کا صدقہ دینا چاہیے‘ دکاندار کو آخری دکان صدقہ سمجھ کر بنانی چاہیے اور استاد کو ریٹائرمنٹ کے بعد کچی آبادی کے بچوں کےلئے صدقہ سکول بنانا چاہیے اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم اللہ تعالیٰ کے مجرم ہیں“ وہ خاموش ہوگئے۔
میں نے ان کا ہاتھ چوما اور باہر آگیا‘ وہ سچے تھے اور ہم سب بے وقوف اور بے عقل۔