اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل نے اپنے ایک خصوصی بیان میں کہا ہے کہ ایک بار اجتماع کا موقع تھا، میں نے خواب دیکھا۔ یہ بہت پرانی بات ہے۔ لوگ جنت میں جا رہے ہیں۔ جنت کا بڑا خوبصورت دروازہ ہے
اور اس پر دربان کھڑے ہوئے ہیں۔ کوئی دروازے کی طرف آتا ہے تو ان کے ہاتھ میں نیزے ہیں، جب کوئی آتا ہے تو وہ نیزے ہٹا دیتے ہیں اور وہ اندر چلا جاتا ہے۔ بعد میں دروازے کے آگے پھر نیزے حائل کر دیتے ہیں۔ جب میری باری آئی تو جنت کے دروازوں کے باہر معمور دربانوں نے آگے نیزے حائل کر دیئے۔ اتنے میں پیچھے سے آواز آئی کہ اپنا آدمی ہے، دروازے کھول دو۔جس پر دربانوں نے دروازے کھول دیئے ۔ میں جب اندر گیا تو دیکھا کہ اجتماع کا عمومی میدان سجا ہوا ہے۔ وہ اجتماع سردیوں کا اجتماع تھا، سردی بہت پڑ رہی تھی۔ لوگ سکڑ سکڑ کر بستروں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے اس وقت اپنے جی میں کہا کہ یہ کون سی جنت ہے؟ تو مجھے غیب سے آواز آئی کہ یہی تو جنت ہے۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ خواب تو خیر خواب ہی ہوتا ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، یہ صرف تسلی کیلئے ہوتا ہے لیکن آپ سب جنت کے باغوں میں بیٹھے ہوئے ہواور اللہ کی رحمت آپ پر موسلا دھار بارش کی طرح برس رہی ہے۔ آپ کوٹھوکر لگتی ہے تو اجر لکھا جاتا ہے، آپ لائن میں لگتے ہیں تو اجر لکھا جاتا ہے۔ رات کو ٹھنڈ سے نیند نہ آئے تو اجر لکھا جاتا ہے۔