رمضان المبارک 6ھ میں بدر کے مقام پر قریشی فوج اور مسلمان مجاہدین میں جنگ ہوئی، جس میں کفار مکہ کے ستر نامور اشخاص مارے گئے، اور اسی قدر گرفتار ہوئے، اس تباہ کن اور ذلت آمیز شکست سے جو حقیقتاََ عذاب الہی کی پہلی قسط تھی قریش کا جذبہ انتقام بھڑک اٹھا جو سردار مارے گئے تھے ان کے اقارب نے تمام عرب کو غیرت دلائی اور یہ معاہدہ کیا کہ جب تک ہم اس کا بدلہ مسلمانوں سے نہ لے لیں گےچین سے نہ بیٹھیں گے،
اور اہل مکہ سے اپیل کی کہ ان کا تجارتی قافلہ جو مال شام سے لایا ہے وہ سب اسی مہم پر خرچ کیا جائے، تاکہ ہم محمدﷺ اور ان کے ساتھیوں سے اپنے مقتولین کا بدلہ لے سکیں۔ سب نے منظور کیا، اور 3 ھ میں قریش کے ساتھ بہت سے دوسرے قبائل بھی مدینہ پر چڑھائی کرنے کا غرض سے نکل پڑے، حتیٰ کہ عورتیں بھی ساتھ آئیں تاکہ موقع آنے پر مردوں کو غیرت دلا کر پسپائی سے روک سکیں۔ جس وقت یہ تین ہزار کا لشکر اسلحہ غیرہ سے پوری طرح آراستہ ہو کر مدینہ سے تین چار میل جبل احد کے قریب خیمہ زن ہوا، تو نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں سے مشورہ لیا۔ آپ کی رائے مبارک یہ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ بہت آسانی اور کامیابی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے، یہ پہلا موقع تھا کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی جو بظاہر مسلمانوں میں شامل تھا، اس سے بھی رائے لی گئی، جو حضور ﷺ کی رائے کے موافق تھی مگر بعض پر جوش مسلمان جنھیں بدر کی شرکت نصیب نہ ہوئی تھی اور شوقِ شہادت بے چین کر رہا تھا مصر ہوئے کہ ہم کو باہر نکل کر مقابلہ کرنا چاہئے، تاکہ دشمن ہمارے بارے میں بزدلی اور کمزوری کا گمان نہ کرے، کثرتِ رائے اسی طرف ہوگئی۔اس عرصہ میں آپ مکان کے اندر تشریف لے گئے اور زرہ پہن کر باہر آئے تو اس وقت بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ہم نے آپﷺ کو آپﷺ کی رائے کے خلاف مدینہ سے باہر جنگ کرنے پر مجبور
کیا،یہ غلط ہوا، اس لئے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ کا منشاء نہ ہو تو یہیں تشریف رکھئے، فرمایا:”ایک پیغمبر کو سزاوار نہیں کہ جب وہ زرہ پہن لے اور ہتھیار لگا لے پھر بدون قتال کئے ہوئے بدن سے اتارے”اس جملہ میں نبی اور غیر نبی کا فرق واضح ہورہا ہے کہ نبی کی ذات سے کبھی کمزوری کا اظہار نہیں ہوسکتا اوراس میں امت کے لئے بھی ایک بڑا سبق ہے۔ جب آپ ﷺ مدینہ سے باہر تشریف لے
گئے، تقریباََ ایک ہزار آدمی آپ کے ساتھ تھے، مگر منافق عبداللہ بن ابی تقریباََ تین سو آدمیوں کو ساتھ لے کر راستہ سے یہ کہتا ہوا واپس ہوگیا کہ جب میرا مشورہ نہ مانا اور دوسرو ںکی رائے پر عمل کیا تو ہم کو لڑنے کی ضرورت نہیں، کیوں ہم خواہ مخواہ اپنے کو ہلاکت میں ڈالیں، اس کے ساتھیوں میں زیادہ تو منافقین ہی تھے، مگر بعض مسلمان بھی اس کے فریب میں آکر ساتھ لگ گئے تھے۔آخر آپ کل سات سو سپاہیوں کی جمعیت لے
کر میدان جنگ میں پہنچ گئے، آپ نے بہ نفس نفیس فوجی قاعدہ سے صفیں ترتیب دیں، صف آرائی اس طرح کی کہ احد کو پشت کی جانب رکھا، اور دوسرے انتظامات اس طرح کئے کہ حضرت مصعب بن عمیر کو علم (جھنڈا) عنایت کیا، حضرت زبیر بن عوامؓ کو رسالہ کا افسر مقرر کیا، حضرت حمزہؓ کو اس حصہ فوج کی کمان ملی جو زرہ پوش نہ تھے، پشت کی طرف احتمال تھا کہ دشمن ادھر سے آئے، اس لئے بچاس تیر اندازوں کا
دستہ متعین کیا اور حکم دیا کہ وہ پشت کی جانب ٹیلہ پر حفاظت کا کام سرانجاد دیں، لڑنے والوں کی فتح و شکست سے تعلق نہ رکھیں، اور اپنی جگہ سے نہ ہٹیں، عبداللہ بن جبیرؓ ان تیر اندازوں کے افسر مقرر ہوئے، قریش کو بدر میں تجربہ ہو چکا تھا اس لئے انھوں نے بھی ترتیب سے صف آرائی کی۔نبی کریم ﷺ کی اس صفٖ آرائی اور فوجی قواعد کے لحاظ سے نظم و ضبظ کو دیکھ کر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ امت کے رہبر کامل، مقدس نبی ہونے کے ساتھ سپہ سالار اعظم کے لحاظ سے بھی بے نظیر ہیں، آپ نے
جس انداز میں مورچے قائم کئے اور لڑائی کا نظم قائم کیا، اس وقت کی دنیااس سے نا آشنا تھی اور آج جبکہ جن حرب ایک مستقل سائنس کی حیثیت اختیار کر گیا ہے وہ بھی آپ کی فوجی قواعد اور نظم و ضبط کو سراہتا ہے، اسی حقیقت کو دیکھ کر ایک مسیحی مورخ بول اٹھا:”بر خلاف اپنے مخالفین کے جو محض ہمت و شجاعت ہی رکھتے تھے محمد ﷺ نے کہانا چاہئے کہ فن حرب کی بھی نئی راہ نکالی، مکہ والوں کی بے دھڑک اور
اندھا دھند لڑائی کے مقابلہ میں خوب دور اندیشی اور سخت قسم کے نظم و ضبط سے کام لیا”اس کے بعد جنگ شروع ہوئی، ابتداء مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا، یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں ابتری پھیل گئی، مسلمان سمجھے کہ فتح ہوگئی، مالِ غنیمت کی طرف متوجہ ہوئے ادھر جن تیر اندازوں کو نبی کریم ﷺ نے پشت کی جانب حفاظت کے لئے بٹھایا تھا انھوں نے جب یہ دیکھا کہ دشمن بھاگ نکلا ہے تو وہ ابھی اپنی جگہ چھوڑ کر پہاڑ
کے دامن کی طرف آنے لگے، حضرت عبدالہ بن جبیرؓ نے ان کو نبی کریم ﷺ کا تاکیدی حکم یاد دلا کر روکا، مگر چند آدمیوں کے سوا دوسروں نے کہا کہ حضورﷺ کے حکم کی تعمیل تو موقت تھی اب ہمیں سب کے ساتھ مل جانا چاہئے، اس موقع سے خالد بن ولید نے جو ابھی مسلمان نہ تھے اور اس وقت لشکر کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے، بروقت فائدہ اٹھایا اور پہاڑی کا چکر کٹ کر عقب کے درہ سے حملہ کردیا،
عبداللہ بن جبیرؓ اور ان کے قلیل ساتھیوں نے اس حملہ کو ہمت و شجاعت سے روکنا چاہا، مگر مدافعت نہ کر سکے، اور یہ سیلاب یکا یک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا، دوسری طرف جو دشمن بھاگ گئے تھے، وہ بھی پلٹ کر حملہ آور ہوگئے اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ گیا اور مسلمان اس گیر متوقع صورت حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ان کا ایک بڑا حصہ پرا گندہ ہو کر میدان سے چلا گیا،
تاہم کچھ صحابہؓ ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے، اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اڑگئی کہ نبی کریم ﷺ شہید ہوگئے، اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے ہوش و حواس بھی گم کردئے اور باقی ماندہ لوگ بھی ہمت ہار کر بیٹھ گئے اس وقت نبی کریم ﷺ کے گردو پیش صرف دس بارہ جاں نثار رہ گئے تھے اور آپ خود بھی زخمی ہوگئے تھے، شکست کی تکمیل میں کوئی کثر باقی نہیں رہی تھی کہ عین وقت پر صحابہؓ کو معلوم ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ بسلامت تشریف رکھتے ہیں،
چنانچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر بھی آپ کے گرد جمع ہوگئے اور آپ کو بہ سلامت پہاڑی کی طرف لے گئے، اس شکست کے بعد مسلمان حد درجہ پریشان رہے اور عارضی شکست چند اسباب کا نتیجہ تھی، قرآن مجید نے ہر سبب پر جچے تلے الفاظ میں تبصرہ کیا اور آئندہ کے لے محتاط رہنے کی تلقین فرمائی۔ (معارف القرآن جلد 2 صفحہ 163، سورہ ال عمران: آیت 121)