مغربی اور مشرقی معاشرے میں کئی اقدار مختلف ہیں اگر یہ کہا جائے کہ مغربی اور مشرقی معاشرے میں کچھ بھی ایک جیسا نہیں تو یقیناََ یہ غلط نہ ہو گا۔ مغربی ممالک اس وقت اپنے تباہ شدہ خاندانی نظام کو سنبھالے دینے کیلئے طرح طرح کی اپنے شہریوں کو ترغیبات دیتے نظر آتے ہیں مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ بجائے ان کے خاندانی نظام کے رستے زخم بہنا بند ہو جائیں ان سے گندی روایات
اور رسموں کی پیپ اور خون رستا ہی چلا جا رہا ہےجس نے ان کے خاندانی نظام کے جسم کو تباہ حال اور بیمار کر رکھا ہے ۔ آج ہماری عقلوں پر نہ جانے کس چیز کا پردہ پڑ چکا ہے کہ ہم مغرب کی اندھی تقلید میں اس کے خاندانی نظام کے بکھرے شیرازے کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں جو ان کی مادر پدر آزادی کا شاخسانہ ہے، پاکستان میں نام نہاد شخصی آزادی کے نام پر گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ کا کلچر بھی آج کل پروان چڑھتا نـظر آرہا ہے۔حال کا مغرب ماضی کے جاہل اندھیروں سے نکل کر علم کی بنیاد پر دنیا کا رہبر توٹھہرا مگر ترقی کی وسعتوں کو چھونے کے چکر میں وہ اپنا سب کچھ گنوا بیٹھےجس میں سب سے اہم ان کا خاندانی نظام تھا جس کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں بنیادی کردار ’’کو ایجوکیشن‘‘اور مخلوط ماحول نے ادا کیا۔علامہ اقبال ؒ نے آج سے کئی دہائیاں پہلے فرما دیا تھا کہ ’’شاخ نازک پہ جو آشیانہ بنے گا ، ناپائیدار ہو گا‘‘۔ ’’کو ایجوکیشن، مغرب کی اندھی تقلید اور خواتین کی نام نہاد آزادی‘‘کے خوفناک نتائج کے حوالے سے مولانا طارق جمیل صاحب کا مدلل اور اثر انگیز بیان نظر قارئین ہے۔مولانا اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں کہ مغرب میں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں جبکہ حق تعالیٰ نے بحیثیت مسلمان مرد اور مسلمان خاتون ہمارے لئے ایک حد فاصل قائم کر دی جسے ہم کراس نہیں کر سکتے۔
پاکستان میں تیزی سے پھیلتے بیہودہ کلچر گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ پر مولانا نے کہا کہ یاد رکھیں یہ یورپ کا کلچر ہے جس نے وہاں کی عورت کو نہ عورت چھوڑا اور نہ وہاں کے مرد کو مرد رہنے دیا۔مغرب کا مرد نہ تو خاوند ہے نہ باپ ہے، نہ بیـٹا ہےاور نہ ہی بھائی ہےاور مغربی عورت نہ ماں ہے نہ بیوی ہے نہ بیـٹی ہے نہ بہن ہے وہ کچھ بھی نہیں رہی وہ صرف ایک ٹشو پیپر ہے
جس کو استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے، مغربی مرد اور عورت کے رشتوں کو وہاں کی بے غیرتی دیمک کی طرح چاٹ چکی ہے۔ انہوں نے سپین میں اپنے تبلیغی دورے کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ میں سپین میں تبلیغی دورے پر تھاتو وہاں کی پولیس کے اعلیٰ افسران کا ایک وفد مجھ سے ملاقات کیلئے آیا، دوران گفتگو ہسپانوی پولیس افسران کے وفد سے میں نے کہا کہ
میں آپ کو دو باتوں کی نشاندہی کر رہا ہوں آپ لوگ اس پر غور کریں، پہلے نمبر پرمیں نے یہاں دیکھا کہ آپ کا خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے ، گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کے کلچر کی وجہ سے آپ کا خاندانی نظام بری طرح متاثر ہو چکا ہے ۔ دوسرے نمبر پر میں نے یہاں کے پارکوں، بازاروں اور سڑکوں پر دیکھا ہے کہ آپ کے بچوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ، آپ کے شہری یا تو
جوان ہیں یا بوڑھے جبکہ بچے بہت کم ہیں جو کہ آپ کے معاشرے میں تشویشناک جنریشن گیپ کی نشاندہی کرتا ہے۔مولانا بتاتے ہیں کہ ہسپانوی پولیس افسران کا وفد میری یہ دو باتیں سن کر سر پکڑ کر بیٹھ گیااور کہنے لگے کہ مولانا آپ نے ہمارے ایسے دو مسائل کی نشاندہی کی ہے جو اس وقت ہمارے معاشرے کا سب سے بـڑا سر درد بنے ہوئے ہیں، ہماری نسل ختم ہو رہی ہے،
ہمارا خاندانی نظـام ختم ہو چکا ہے۔ مولانا نے مزید کہا کہ بحیثیت مسلمان ہماری نظر نیچی ہوتی ہے اور ہم حیا کی چادر سے باہر نہیں نکل سکتے، بے حیائی جس معاشرے میں رچ بس جائے تو اللہ تعالیٰ اس معاشرے کو پنپنے نہیں دیتا اور وہ معاشرہ ذلت اور پستی کا شکار ہو جاتا ہے۔یورپ کی عورت نے آزادی کا نعرہ لگا کر سب کچھ حاصل کر نے کے بجائے سب کچھ گنوا دیا۔
نہ ماں کی نسبت اسے نـصیب ہے نہ بیوی کی، نہ بیٹی کی ، نہ بہن کی اور اس کے ہاتھ خالی ہیں، یورپی معاشرہ دنیا کا دکھی ترین معاشرہ ہے۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ اگر ہمارے حکمران چاہتے تو خواتین اور مرد حضرات کی یونیورسٹیاں الگ الگ آرام سے بن سکتی تھیں اور یہ کوئی بـڑا مسئلہ نہیں تھالیکن افسوس کہ شاید اس بات کا شعور کسی کو بھی نہیںکہ میرے اللہ نے
کتنی احتیاط کے ساتھ عورت کو عزت دی ہے اور اس کی عزت کی حفاظت کیلئے کیا کیا قانون بنائے ہیں اور اس کے طرز زندگی کیلئے کتنی خوبصورت ہدایات فرمائی ہیں لیکن افسوس ہم یورپ کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگ رہے ہیں اور بھاگتے ہی جا رہے ہیں اور اس کو اپنی زندگی سمجھ رہے ہیں۔ مولانا طارق جمیل کا موبائل فون کے غلط استعمال پر کہنا تھا کہ موبائل فون کی
وجہ سے فحاشی بہت زیادہ پھیلی بجائے اس کے کہ ہم اسے اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتے ہم نے اپنے اخلاق برباد کر لئے اور اپنی آنکھوں کو بھی گناہ کا ذریعہ بنا لیاانہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ دل کی سختی کا سبب آنکھیں ہیںجب آنکھ غلط دیکھتی ہے اور دیکھے چلے جاتی ہے تو دل کی زمین بنجراور ویران ہو جاتی ہے ،ہمیں اپنی آنکھوں کی حفاظت کرنی ہے ان کے سامنے
حیا کے پردے ڈالنے ہیں ، ہمیں حیا سیکھنی ہو گی ، پاک دامنی سیکھنی ہو گی ۔ اللہ تعالیٰ کی بتائی حد فاصل کا احترام کریں۔ اس موقع پر مولانا نے مغرب کی اندھی تقلید کرنے پر مسلمانوں کی غیرت ایمانی جگانے کیلئے ایک نہایت عمدہ شعر پڑھا کہ’’ہم آپ تراشتے ہیں منازل کے سنگ میل، ہم وہ نہیں کہ جنہیں زمانہ بنا گیا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت مسلمان ہماری اپنی ایک ثقافت ہے
ہماری الگ پہچان ہے ، ہمارے ہاں بیٹی کا ایک مقام ہے ،بیوی کا ایک مقام ہے،بہن کا ایک مقام ہے،ماں کا ایک مقام ہے ، ہمارے ہاں رشتوں کی قدر ہے، اس قدر کو اللہ نے ہمارے دلوں میں بٹھایا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سینکڑوں آیات اتاری ہیں ماں، بہن ، بیٹی کے رشتوں کو باقی رکھنے کیلئے جسے ہمارے نبی کریم ﷺ نے کھول کھول کر بتایا ہے ۔ آخر میں مولانا طارق جمیل نے
اپیل کرتے ہوئے کہا کہ میرے عزیزو! وہ بیرئیر کراس نہ کرو ونہ حسرت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا اور ہلاکت اور برباد ی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔یورپی معاشرتی روایات میں کانـٹوں کے سوا کچھ نہیں جبکہ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺکی زندگی میں سارے پھول کھلے ہوئے ہیں اور اس سے باہر کانٹے ہی کانـٹے ہیں اور جو اس سے باہر جائے گا وہ دامن بھی تار تار کرائے گا
اور خود بھی لہو لہان ہو گا اور حسرتوں کی موت مر کر مٹی کی چادر اوڑھ کر ایسا بے نام و نشان ہو گا کہ نہ کوئی فاتحہ پڑھنے والا ہو گااور نہ کوئی دعا کرنے والا۔ بے حیا معاشرہ دھرتی کیلئے زمین کیلئے ناسور بن جاتا ہےجبکہ پاکیزہ معاشرہ اس کائنات کا سب سے خوبصورت پھول ہوتا ہے جس کی خوشبو سے سارا عالم مہک جاتا ہے۔