اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل نے ایک خصوصی خطاب میں کہا کہ جو اللہ کے بندے ہوتے ہیں انہیں قبر کے کیڑے بھی آسانی سے ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ محمود غزنوی دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ تھا۔ 1974 ء میں غزنی میں زلزلہ آیا اور اس کی قبر پھٹ گئی۔ اس بندے نے 34 سال حکومت کی تھی۔ جس وقت وہ حکمران تھا دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ تھا۔ دنیا میں سلطان کا
پہلا ٹائٹل محمود غزنوی کو ملا۔ ظاہر شاہ کی حکومت میں 1974 ء کوزلزلہ آیا ، محمود غزنوی کی قبر پھٹ گئی۔ منتظمین نے قبر کو ٹھیک کرنے کیلئے پوری قبر کھول دی۔ اس کو مرے ہوئے 1000 سال ہو گئے تھے۔ وہ نہ عالم تھا، نہ محدث تھا، نہ مفسر تھا۔ اس کی قبر میں عجیب منظر تھا، اس کا کفن تک میلا نہیں ہوا تھا۔ 1000 سال بعد بھی اس کا کفن ویسے کا ویسا ہی تھا۔ اس کاہاتھ سینے پر تھا اور کفن سینے سے کھلا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اسے آج ہی کوئی قبر میں اتار کر گیا ہے۔ اس کے ہاتھ کو ہاتھ لگایا گیا تو وہ نرم و نازک تھا۔ ساری دنیا میں اس بات کی خبر پھیل گئی۔ اللہ کے نبی ﷺ ہمیں ایسی زندگی دے کر گئے ہیں اور اس کی تاکید کر کے گئے ہیں۔ سبکتگین نے997ء میں وفات پائی اور اس کی جگہ محمود تخت نشین ہواجس کی فتوحات کا سلسلہ سکندراعظم کی یاد دلاتا ہے۔ اس نے جے پال کے خلاف لڑائی جاری رکھی اور1001ء میں اٹک کے قریب اسے شکست دی۔ جے پال کے بعد اس کا بیٹاآنندپال تخت نشین ہوا‘ اس نے بے سمجھی سے1005ء میں جب محمودملتان کے اسماعیل حاکم ابوافتح داؤد کے خلاف انتقامی کارروائی کررہا تھا پر حملہ کر دیا لیکن شکست کھائی اور کشمیر بھاگ گیا۔ اگلے سال محمود آنند پال کو مخالفت کی مزید سزا دینے کا ارادہ کیا اور پشاور کے قریب اس کے عظیم لشکر کو شکست دے کر ہندوستان میں داخل ہوا اور کانگڑہ تک چڑھ آیا۔
اس کے بعد اس نے ہندوستان پر کئی حملے کئے اور متھرا‘ قنوج اور سومنات وغیرہ سے بہت سا مال غنیمت لے کر واپس ہوا۔ محمود نے ان مقامات پر حکومت قائم نہیں کی لیکن آخر میں لاہور کی حکومت اپنے غلام ایاز کو دے گیا۔ محمود نے1030ء میں وفات پائی۔ محمود کی نسبت ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں: ’’محمود کی زندگی کی زبردست خواہش فتح اور حکومت کی توسیع تھی اور اسی میں اس نے ساری زندگی صرف کر دی۔ وہ اس
میں بہت حد تک کامیاب رہا۔ اس نے وسط ایشیاء اور فارس کا بہت سا علاقہ فتح کرلیا اور عباسی خلیفہ بغداد کا علاقہ فتح کرنے کا ارادہ کررہا تھا کہ1030ء میں مر گیا۔ اس نے سپاہیانہ کامیابی اور لوٹ مار کے لئے ہندوستان پر کئی حملے کئے۔ کئی مندروں کو لوٹا اور جلایا لیکن اس لئے کہ ان میں زرومال جمع تھا۔ اس نے کسی کو اسلام قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس نے متعدد ہندو افسروں اور سپاہیوں
کو اپنی فوج میں ملازم رکھا جو اس کیلئے وسط ایشیاء اور ایران میں لڑتے رہے‘‘۔ محمود کی فوج میں جن ہندوسپہ سالاروں نے عروج حاصل کیا ٗ ان میں سوبندررائے ٗ تلک اور ناتھ خاص طورپر مشہور ہیں۔ سوبندر رائے پر حکومت کو اس قدر اعتماد تھا کہ جب محمود کی وفات کے فوراً بعد مغربی ولایت کے شہر بست میں بغاوت ہوئی تو محمود کے جانشین نے سوبندر رائے کو اس نازک موقع پر بغاوت فروکرنے کے لئے بھیجا اور
وہ بڑی بہادری سے لڑتا ہوا میدان جنگ میں کام آیا۔ ناتھ کی وفا شعاری بھی اسی قسم کی تھی۔ اسے مسعود نے نیال تگین کی سرکوبی کیلئے روانہ کیا اور جب وہ کئی فتوحات کے بعد لڑائی میں ماراگیا تو مسعود کو اتنا رنج ہوا کہ اس نے تین روز تک کھانا نہ کھایا اور اس کی جگہ اس کا ہم مذہب (تلک)نامزد کیا۔ سلطان محمود نے نہ صرف فتح ممالک اور جمع اموال میں کمال حاصل کیا بلکہ علم و ادب کی بھی سرپرستی کی اور اپنے دربار
میں زمانہ بھر کے منتخب شعراء و علماء و فضلا جمع کر دئیے ۔واقعہ یہ ہے کہ برگزیدہ شعراء کا جم غفیرمحمود کے دربار میں تھا ۔ایران و توران کے کسی دوسرے فرمانروا کو میسر نہیں ہوا۔ ان شعراء کی بذلہ سنجیوں اور نکتہ آفرینیوں نے محمود کی فتوحات کو چار چاند لگا دئیے اور نہ صرف سیاسی تاریخ میں بلکہ فارسی ادب کے اوراق میں بھی محمود اور اس کے دربار کو بلند جگہ مل گئی۔ جن شعراء نے محمود کے دربار
میں شہرت پائی ان میں فردوسی ٗ عنصری ٗ عسجدی اور فرخی خاص طورپر مشہور ہیں۔ فردوسی کے سوا باقی تین شعراء نے ایسے اشعار لکھے ہیں جن میں سلطان کی ہندوستانی فتوحات کی طرف اشارہ ہے۔ عسجدی شاید سلطان کی مہم سومنات میں شریک بھی تھا اور اس نے اس کے متعلق ایک زبردست قصیدہ لکھا تھا جس کے چند شعر محفوظ ہیں۔ مطلع تھا: ’’تاشاہ خسرواں سفر سومنات کرد کردار خویش راعلم معجزات کرد‘‘ اس سے
بھی پرزور قصیدہ فرخی کا ہے جو اس نے فتح کی یاد گار میں لکھا: ’’فسانہ گشت و کہن شدحدیث اسکندر سخن نوآر کہ نور احلاوتلیت دگر‘‘ اور پھر آگے چل کر سفرسومنات اور فتح کی تمام تفصیلات نظم کی ہیں۔ فرخی نے محمود کی وفات پر جو مرثیہ لکھا وہ بھی فارسی شاعری میں ایک خاص چیز ہے: ’’شہرغزنیں نہ ہمانست کہ من دیدم پار چہ فتاداست کہ امسال دگرگوں شدکار‘‘ سلطان محمود ایک عجیب دل گردے کا مالک اور ایک عظیم
الشان قوت ارادی کا انسان تھا۔1027ء میں اسے بخار رہنے لگا جس نے تپ دق کی صورت اختیار کر لی لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے معمولات میں فرق نہ آنے دیا۔ دربار اورباریابی کا سلسلہ اسی طرح برقرار رکھا۔ خراسان سے سلجوقوں کو نکالا۔ رے کی بغاوت کو فرو کیا۔ 1029ء کا موسم گرما خراسان میں اور اگلا موسم سرما بلخ میں گزارا لیکن اب صحت نے بالکل جواب دے دیا اور 22اپریل1030ء کو اسے غزنی واپس آنا پڑا۔
سات آٹھ روز بعد قضا کا پیغام آ پہنچا۔ بستر مرگ پر بھی سلطان نے اس بلند ہمتی اور قوت ارادی کا ثبوت دیا جس کا مظاہرہ ہندوستان کے معرکوں میں ہوتا تھا۔ اپنی طویل بیماری میں اس نے بستر علالت پر دراز ہونا قبول نہ کیا۔