اسلام آباد( ایکسکلوژو رپورٹ )پاکستان کے معروف اسلامی سکالر مولانا طارق جمیل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسلام محبت اور خیر کا دین ہے ۔ آپ کسی کو کچھ بھی نہ دیں بس محبت دیں تو یقین جانیں کہ لوگ آپ کی ہر بات مانیں گے ۔ کسی کو کسی قسم کی فرقہ واریت میں نہ لے کے جائیں اگر تبلیغ کرنی ہے تو بس محبت کی تبلیغ کریں ۔ انہوں نے عامر خان سے ملاقات ایک واقعہ سنایا ۔ کہنے لگے کہ :
میں جب عامر خان سے ملا تو میں نے کوئی دین کی بات نہیں کی بس اسے محبت دی جس سے و اتنا متاثر ہو ا کہ آج تک اس کے میسجز آتے ہیں، کالز آتی ہیں ۔ کہنے لگے کہ پہلے پہل ہماری آپس میں کوئی ملاقات نہیں تھی ۔ حج کے دوران ایک بار عامر اپنی والدہ کے ساتھ حج پر آیا ہوا تھا اور میں بھی مکہ میں موجود تھا ۔ میں نے شاہد آفریدی کو کہا کسی طرح میری اس سے ملاقات کرواؤ ۔ اس نے عامر سے ملاقات کا ٹائم فکس کیا ۔ عامر نے ہمیں 30منٹ کا وقت دیا کہ اس سے اوپر میں ایک منٹ بھی نہیں بیٹھوں گا ۔مولانا بتاتے ہیں کہ میں مقرر کردہ ٹائم پر اس کے پاس پہنچا تو اسے بڑا ڈرا سہما ہوا پایا کہ مولانا آگئے ہیں اب وہ فتوے لگائیں گے کہ عامر تم تو جہنمی کام کر رہے ہو ۔ تم اسلام سے خارج ہو ۔ناچ رہا گا رہا ہے ، ابھی تیرا جہنم کا فیصلہ ہوا جاتا ہے ۔ اسی دوران مولانا نے بتایا کہ میں تو خود بھی کالج کے زمانے میں ناچنے گانے والاشخص تھا ۔ نہ میرا تبلیغ سے کوئی واسطہ نہ میں ان سے متاثر مگر میرا سکول کے زمانے کا ایک دوست ان سے متاثر تھا ۔ ایک روز اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور بغیر بتائے مجھے ایک کام ہے کا کہہ کر مجھے تین دن کیلئے تبلیغ پر لے گیااور میں جو اپنے سکول اور کالج کا بہترین سنگر تھا تبدیل ہو گیا ۔ میری زندگی بدلی اور میں دین کے راستے پر چل پڑا ۔ میں آج بھی اس دوست کو دعائیں دیتا ہوں ۔خیر عامر خان سامنے بیٹھ گیااور میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ عامر سے فلمی دنیاکی باتیں شروع کر دیں ۔ مولانا بتانے لگے کہ میرے پاس 60سے 70کی دہائیوں کی فلموں بارے عامر سے معلومات تھیں تو جب میں نے اس سے فلمی دنیا کی باتیں شروع کیں اس پر میری فلمی معلومات کا رعب پڑ گیا اور وہ مجھ سے ہل جل گیا ، اس کا خوف ختم ہوا وروہ پھر بڑے دوستانہ انداز میں باتیں کرنے لگا ۔
باتیں ہوتی گئیں ٹائم گزرتا گیا ۔ آدھا گھنٹہ کب گزرا پتہ بھی نہ چلا ۔ گھنٹہ گزرا اور مجھے اس کا خوف ختم ہوتا دکھائی دیا تو میں نے اسے کہا کہ میں اب تمہیں اپنے نبی ﷺ کا حج سناؤں ؟ کہنے لگا جی ضرور سنائیں ۔ خیر ملاقاتیں چلتی رہیں پھر ایک روزمجھ پر ایسا امتحان آیا کہ میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا جواب دوں ۔ ہوا یوں کہ میں ایک اجتماع میں تھا کہ عامر کا میسج آیا اور وہ بوالا کہ مولانا میری فلم آرہی ہے تلاش۔ آپ دعا کریں کہ وہ ہٹ ہو جائے ۔
کہنے لگے میں سوچ میں پڑ گیاکہ اب کیا جواب دوں ۔ میرے پاس اس وقت کئی علما ء بیٹھے تھے میں نے سوال کیا کہ مجھے بتاؤ کہ کیا جواب دوں ؟ جواب آیا کہ جناب یہ آپ کی فیلڈ ہے آپ ہی جواب دیں ۔ مولانا کہنے لگے کہ اب میں ساری رات سوچتا رہا کہ کیا جواب دوں پر کوئی جواب نہ سوجھا ۔ اگلا دن بھی گزر گیا مگر جواب غائب ۔ پھر عصر کی نماز کے وقت جب میں وضو بنا رہا تھا تو میرے ذہن میں یکا یک ایک جواب آیا اور میں نے عامر کو ٹیکسٹ کیا کہ
’’عامر بھائی جو تخلیقی ذہن ہو تا ہے نا وہ اللہ تعالیٰ کسی کسی کو دیتا ہے اور تمہارے ساتھ گزارے ہوئے وقت میں ، میں نے دیکھا کہ تم تخلیقی ذہن کے ہو اور ایسے لوگ کامیابی ناکامی کی پرواہ نہیں کرتے بس اپنے کام سے کام رکھتے ہیں ۔فوراً جواب آیا کہ ہاں مولانا صاحب آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔