دمشق (این این آئی)شام میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے بتایا ہے کہ شام کے دارالحکومت دمشق میں قائم الحسینیہ پناہ گزین کیمپ میں رہائش پذیر فلسطینی پناہ گزین فاقہ کشی کا شکار ہیں اور وہ پیٹ پالنے کے لیے اپنے گھروں کا سامان فروخت کرنے پرمجبور ہیں۔ میڈیارپورٹس کے مطابق ایک فلسطینی پناہ گزین ابو ولید نے بتایاکہ شام میں بڑی تعداد میں فلسطینی بدترین معاشی بحران کا شکار ہیں۔ کرونا کی وبا نے ان کی
مشکلات میں اور بھی اضافہ کردیا ہے۔ شامی لیرہ کی قیمت میں کمی، بے روزگاری اور معاشی ابتری نے پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کاسامان بیچ کر اپنا پیٹ پالنا پڑ رہا ہے۔فلسطینی پناہ گزین نے بتایا کہ انتہائی محدود آمدنی کی وجہ سے اس کا پورا خاندان مشکلات کا شکار ہے۔ اس کی آمدن کا نصف حصہ بجلی اور پانی کے بلوں میں چلا جاتا ہے۔ کیمپ میں موجود دیگر فلسطینی بدترین معاشی حالات کا سامنا کررہے ہیں۔فلسطینی پناہ گزین کا کہنا تھا کہ فلسطینی امدادی گروپوں، شامی حکومت اور عالمی امدادی اداروں کی طرف سے ان کی کسی قسم کی مدد نہیں کی جا رہی ہے۔اس نے کہا کہ ہم اپنے گھر کا بیشتر سامان کھانے پینے کی اشیا کے حصول کے لیے فروخت کرچکے ہیں۔ میں اپنی بیوی سے اکثر یہ سوال کرتا ہوں کہ اب اہم کیا چیز بیچیں۔خیال رہے کہ دمشق میں الحسینیہ کیمپ 1982 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کیمپ کے لیے تین سے پانچ مربع کلو میٹر کا رقبہ مختص کیا گیا ہے۔ دمشق کے جنوب میں یہ دوسرا بڑا پناہ گزین کیمپ ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی پناہ گزین رہائش پذیر ہیں۔ شام میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے بتایا ہے کہ شام کے دارالحکومت دمشق میں قائم الحسینیہ پناہ گزین کیمپ میں رہائش پذیر فلسطینی پناہ گزین فاقہ کشی کا شکار ہیں اور وہ پیٹ پالنے کے لیے اپنے گھروں کا سامان فروخت کرنے پرمجبور ہیں۔ میڈیارپورٹس کے مطابق ایک فلسطینی پناہ گزین ابو ولید نے بتایاکہ شام میں بڑی تعداد میں فلسطینی بدترین معاشی بحران کا شکار ہیں۔