کابل(این این آئی)افغانستان میں بہ یک وقت دو حکومتوں کے قیام کے سبب نہ صرف سرکاری کاموں میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں، بلکہ عام آدمی کے لئے بھی جو جنگ و جدال سے تھک چکا ہے، زندگی اور مشکل ہوگئی ہے۔اور، ایسا لگتا ہے کہ جو معاہدہ طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پایا تھا، جس میں طالبان اور حکومت کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ بھی طے ہوا تھا، اس پر بھی عمل درآمد رکا ہوا ہے۔
ساتھ ہی، بین الافغان بات چیت کے لیے مقررہ ڈیڈلائن بھی گزر چکی ہے۔تاہم، ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی، زلمے خلیل زاد سمیت مختلف حلقوں کی جانب سے کوششوں کے سبب اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان مصالحت کا کوئی فارمولا طے ہو جائے اور 40یا 60کی بنیاد پر شراکت اقتدار کے کسی فارمولے پر پہنچ جایا جائے۔میڈیارپورٹس کے مطابق اسوقت صورت حال یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی اپنی کابینہ کا اعلان نہیں کر سکا۔ دونوں کے حامی ایک دوسرے کو کام نہیں کرنے دے رہے ہیں اور خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ طالبان بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ زلمے خلیل زاد اور سینئر افغان سیاست دانوں کی کوششوں سے افغانستان کے سال نو کے موقع پر کوئی معاہدہ دونوں کے درمیان طے ہو جائے گا۔