اسٹا ک ہوم(آن لائن)سویڈن کے ایک محقق کا کہنا ہے کہ تنازع میں مبتلا ممالک کی جانب سے طلب میں اضافے پر عالمی سطح پر ہتھیاروں کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے تاہم امریکا اور روس کے درمیان برآمدات میں بڑا خلا سامنے آیا ہے۔رپورٹ کے مطابق اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیش ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) کے مطابق 2015 سے 2019 تک عالمی سطح پر ہتھیاروں کی برآمدات میں
2010-2014 کے عرصے کے مقابلے میں 5.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔سپری کے سینیئر محقق پیٹر ویزمین کا کہنا تھا کہ ‘مجموعی طور پر اسلحہ کی منتقلی میں اضافہ ہوا ہے،ہتھیار درآمد کرنے والے ممالک میں طلب بڑھی ہے’۔امریکا سے شپمنٹ میں 23 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد عالمی سطح پر ہتھیاروں کی برآمدات میں اس کا حصہ 36 فیصد ہوگیا۔2015 سے 2019 کے درمیان امریکا نے 96 ممالک کو بڑے ہتھیار فراہم کیے۔امریکا کے ہتھیاروں کی برآمدات کا آدھا حصہ مشرق وسطیٰ میں گیا اور اس کا بھی آدھا سعودی عرب جو دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک ہے۔سعودی عرب کی ہتھیاروں کی درآمدات 2010-2014 کے مقابلے میں 130 فیصد بڑھی ہے اور اس نے 2015-2019 کے درمیان عالمی سطح پر ہتھیاروں کی برآمدات میں سے 12 فیصد وصول کیا ہے۔پیٹر ویزمین کا کہنا تھا کہ ‘یہ حقیقت کہ مشرق وسطیٰ کو اتنے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی برآمدات تشویشناک ہے کیونکہ خطہ تنازع اور کشیدگی کا سامنا کر رہا ہے اور ممکنہ طور پر کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا’۔دریں اثنا دنیا کے دوسرے بڑے ہتھیار برآمد کرنے والے ملک روس سے برآمدات 18 فیصد کم ہوئی جس کی سب سے بڑی وجہ بھارت کو فروخت میں کمی ہے۔پیٹر ویزمین کا کہنا تھا کہ ‘روس کے کیس میں یہ کوئی اہم تبدیلی نہیں تاہم واضح ہے اور اس سے سب سے بڑے امریکا اور دوسرے نمبر پر روس کے درمیان بہت بڑا خلا ظاہر ہوتی ہے’۔فرانس کے ہتھیاروں کی برآمدات میں سب سے بڑی تبدیلی سامنے آئی جو گزشتہ 5 سالوں میں 72 فیصد تک بڑھ گئے جس کے بعد فرانس جمنی سے آگے بڑھتے ہوئے دنیا کا تیسرا بڑا ہتھیار برآمد کرنے والا ملک بن گیا جس کی عالمی سطح پر حصہ 7.9 فیصد رہا۔فرانس کا آدھے سے زیادہ ہتھیار مصر، قطر اور لڑاکا طیارے رافیل کے بعد بھارت رہے۔ہتھیاروں کی برآمدات میں 2000 کے آغاز سے ہی اضافے کا رجحان ہے۔