اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)عارضی جنگ بندی کا دورانیہ اب ختم ہو چکا ،افغان فورسز کیخلاف کاروائیاں دوربارہ شروع کر نے کا فیصلہ ۔ تفصیلات کے مطابق ترجمان ذبیح اللہ مجاہدنے کہا ہےکہ عارضی جنگ بندی کا دورانیہ اب ختم ہوچکا ہے لہٰذا افغان فورسز کیخلاف اپنی معمول کی کارروائیاں دوبارہ شروع کررہے ہیں۔افغان طالبان کا یہ بیان صدر اشرف غنی کے متنازعہ بیان کے بعد سامنے آیا ہے ۔
اس حوالے سے طالبان کے ذرائع نے کہا ہے کہ افغان امن معاہدے کیلئے 7 روزہ عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا، اب اس کا دورانیہ ختم ہو گیا ہے، جبکہ معاہدے کا اطلاق افغان فورسز کیخلاف کاروائی پر نہیں ہوتا اس لیے ان کیخلاف دوبارہ سے کاروائیوں کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ترجمان نے کہا ہے کہ ہمارے افغان طالبان کسی بھی غیر ملکی افواج کونشانہ نہیں بنائیں بلکہ یہ کاروائی صرف افغان فورسز کیخلا ف کی جائے گی ۔ دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے امریکا اور طالبان معاہدے کے تحت قیدیوں کو رہا نہ کرنے کے اعلان کے بعد طالبان نے بین الافغان مذاکرات میں شرکت نہ کرنے فیصلہ کرلیا۔جیونیوز کے مطابق 29 فروری 2020 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدہ ہوا تھا جس سے 18 سالہ جنگ کے خاتمے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ امن معاہدے میں ایک شرط یہ رکھی گئی تھی کہ 10 مارچ 2020 تک طالبان کے 5 ہزار قیدی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کیا جائے گا اور اس کے فوراً بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان ملک کے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے مذاکرات شروع ہوں گے۔معاہدے کے چند گھنٹوں بعد ہی افغان صدر نے طالبان کے قیدی رہا کرنے سے انکار کردیا تھا
جس کے بعد اب افغان طالبان نے بھی بین الافغان مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے غیر ملکی خبرایجنسی کو ٹیلیفونک گفتگو میں بتایا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی تک انٹرا افغان مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ’اگر ہمارے 5000 قیدی جن میں سے 100 یا 200 کم یا زیادہ یہ معنی نہیں رکھتا، اگر ان کو رہا نہ کیا گیا تو مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے‘۔
خیال رہے کہ دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا آئندہ 14 ماہ کے دوران ہوگا جب کہ اس کے جواب میں طالبان کو ضمانت دینی ہے کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔اعلامیے کے مطابق امریکا اور افغانستان جامع امن معاہدے پر مل کر کام کرنے کیلئے پرعزم ہیں، امن معاہدہ 4 نکات پر مشتمل ہے۔معاہدے کا اطلاق فوری طور پر ہوگا،
14 ماہ میں تمام امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوگا، ابتدائی 135 روز میں امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کی تعداد بھی اسی تناسب سے کم کی جائے گی۔معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا جائے گا۔ 10 مارچ 2020 تک طالبان کے 5 ہزار قیدی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کیا جائے گا
اور اس کے فوراً بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔معاہدے کے مطابق امریکا طالبان پر عائد پابندیاں ختم کرے گا اور اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیاں ختم کرنے پر زور دے گا۔معاہدے کے تحت افغان طالبان اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کیخلاف استعمال نہ ہو۔