نئی دہلی (این این آئی) بھارت کی سپریم کورٹ نے شہریت میں ترمیم کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں جس کے باعث ملک میں جاری مظاہرے شدت اختیار کر گئے ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے حال ہی منظور کیے گئے شہریت کے متنازع قانون پر عملدرآمد روکنے سے متعلق درخواست مسترد کردی ہے۔اس حوالے سے عدالت میں شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف اپیلیں دائر کرنے والے درخواست گزاران کے وکیل کپل سیبال نے کہا کہ ’ہم اس کیس میں حکم امتناع چاہتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھارت آئین کے ان حصوں کے برعکس ہے جس میں سب کو برابری کی ضمانت دی گئی ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوب دے نے گزشتہ ہفتے منظور کیے گئے قانون پر عملدرآمد روکنے سے متعلق درخواستیں مسترد کردیں۔تاہم عدالت 22 جنوری کو شہریت میں ترمیم کے نئے قانون کی آئینی حیثیت سے متعلق درخواستوں پر سماعت کرے گی۔خیال رہے کہ بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مظاہروں کو آج چھٹا روز ہے جن میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مزید شدت آگئی ہے۔ شہریت کے متنازع قانون کے خلاف بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے کئی علاقے میدانِ جنگ بن گئے۔ نئی دہلی میں ہونے والے مظاہرین مشتعل افراد کی جانب سے بسوں میں تھوڑ پھوڑ اور پولیس پر پتھراؤ کیا گیا جب کہ پولیس چوکی اور موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگا دی گئی۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی دہلی میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 12 پولیس اہلکار سمیت 21 افراد زخمی ہوئے۔دوسری جانب کلکتہ اور تامل ناڈو میں بھی ہزاروں افراد متنازع قانون کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے جس کے نتیجے میں مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں۔ بھارتی ریاست آسام کے چند علاقوں سے کرفیو اٹھا لیا گیا تاہم موبائل انٹر نیٹ سروس بدستور بند ہے۔علاوہ ازیں شہریت کے متنازع قانون پر سوشل میڈیا پر پوسٹ کے الزام میں 113 افراد کو بھارتی پولیس نے گرفتار کر لیا۔