بنارس(این این آئی)بھارت کے شہر بنارس کی ایک یونیورسٹی میں مسلمان پروفیسر کو شعبہ سنسسکرت پڑھانے کے لیے تعینات کیا گیا ہے جس پر یونیورسٹی کے ہندو طلبہ کی جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے اورکہا جا رہا ہے کہ ایک مسلمان پروفیسر ہمیں سنسسکرت کیسے پڑھا سکتا ہے؟برطانوی نشریاتی ادارے کے
مطابق دی بنارس ہندو یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے فیروز خان نامی مسلمان پروفیسر کی تقرری کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر فیروز تمام اْمیدواروں میں سب سے قابل پروفیسر ہیں، مذہب کے نام پر ان کے ساتھ تفریق نہیں کی جا سکتی ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں مذہب، ذات برادری یا صنف سے قطع نظر سب کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے۔دوسری جانب طلبہ کا کہناتھا کہ کسی پروفیسر کی تقرری ہوتی ہے تو وہ 65 برس یہاں پڑھاتا ہے۔ ان برسوں میں ہزاروں طلبہ یہاں سے پڑھ کر نکل جاتے ہیں، اس سے کتنے بچوں کا مستقبل تباہ ہو گا۔ طلبہ نے کہا کہ ہم مسلمان پروفیسر کی تقرری کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور جب تک انہیں ہٹایا نہیں جاتا تب تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ کالج میں نصب کتبے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ صرف ہندو اس یونیورسٹی میں پڑھ سکتے ہیں اور غیر ہندوئوں کا داخلہ بھی یہاں ممنوع ہے، تو پھر مسلمان پروفیسر کیسے یہاں آسکتے ہیں؟میڈیا رپورٹس کے مطابق فیروز خان کا تعلق راجستھان سے ہے، انہوں نے سنسکرت میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے۔ اس سے قبل وہ جے پور کے ایک سنسکرت ادارے میں پڑھاتے تھے اور سنسکرت کے ایک بہترین سکالر ہیں۔ انہیں کئی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔فیروز خان کی تقرری کے حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ وہ تمام اْمیدواروں میں سب سے بہتر ہیں۔ انتظامیہ کا یہ بھی کہناتھا کہ ضابطے کے مطابق مذہب کی بنیاد پر کسی سے تفریق نہیں برتی جا سکتی۔ڈاکٹر رام نارائین دیویدی نے بتایا کہ پروفیسر فیروز خان کی تقرری پوری طرح مسلمہ ضابطوں کے تحت کی گئی ہے۔ طلبہ یہاں ہنگامہ کر رہے ہیں۔ وہ یہ سمجھ نہیں رہے ہیں کہ ان کا انتخاب ضابطے کے تحت ہوا ہے۔ طلبہ کو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔