اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت میں گائے کا پیشاب دودھ سے زیادہ فروخت ہونے کا انکشاف، ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سائنسدان مودی حکومت سے پریشان ہیں، جس نے انہیں سائنس سے دور اور ذاتی خواہشات کے قریب کر دیا ہے جو جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے،
برطانوی جریدے اکانومسٹ کے مطابق بھارت گندگی پر پیسے بہا رہاہے جبکہ فنڈنگ اور ترجیحات کی بات کی جائے تو گائے چاند مشن سے بھی اوپر ہے، دی اکانومسٹ کے آرٹیکل میں چاند پر بھیجے گئے دوسرے ناکام مشن چندریان ٹو کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بعض بھارتیوں کا ماننا ہے کہ چندریان ٹو کے لیے بجٹ کم رکھا گیا ہے، ان کے مطابق اس اہم کام کے لیے کم بجٹ رکھا گیا جبکہ دیگر معاملات میں زیادہ فنڈنگ کی جا رہی ہے، سائنسدانوں کا شکوہ ہے کہ 2014ء سے جب سے مودی حکومت اقتدار میں آئی ہے سرکاری سطح پر قدیم طریقہ علاج کو فروغ دیا جا رہا ہے اور اسی پر فنڈنگ کی جا رہی ہے، آرٹیکل کے مطابق بھارتی سائنسدانوں پر حکومت کی جانب سے گاؤ موتر اور پنچا گاؤ پر کام کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے، جو گائے کے گوبر، پیشاب، دودھ، دہی اور گھی سے بنایا جاتا ہے، بھارتی ریسرچر نے اپنی مجبوری بتاتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت کے قائم کردہ نیشنل کاؤ کمیشن نے اس کام کے لیے 60 فیصد سے زائد فنڈز رکھے ہیں جو کہ 500 کروڑ روپے بنتے ہیں، انہیں اپنے اصل کام کے لیے لیب اور دیگر سہولتوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے یہ کام بھی کرنا پڑ رہا ہے ورنہ انہیں فنڈز نہیں ملیں گے، آرٹیکل میں حکمران جماعت کی خاتون رکن پارلیمنٹ پراگیا ٹھاکر کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن کا ماننا ہے کہ گاؤ موتر پینے سے ان کا بریسٹ کینسر ختم ہو گیا
جو تین آپریشن کے باوجود ختم نہیں ہوا تھا، بی جے پی کی رہنما پراگیا ٹھاکر نے کہا کہ گائے پر اگر الٹی سائیڈ سے ہاتھ پھیرا جائے تو اس سے ہمارا بلڈپریشر ٹھیک ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ سائنٹیفک ہے، ان کے علاج کرنے والے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ ان کا عقیدہ ہو سکتا ہے طبی بنیاد پر اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ بھارتی شہر اندھور میں کاؤ یورین تھراپی اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے بھی انتہائی مذائقہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ گاؤ موتر سے کینسر کا علاج ہو سکتا ہے
جبکہ جونا گڑھ زرعی یونیورسٹی کے ریسرچر تو اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں، انہوں نے گائے کے پیشاب میں کینسر کا علاج ہی نہیں بلکہ سونا بھی دریافت کیا ہے، رپورٹ کے مطابق بھارت میں آن لائن ریٹیلر بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں اور بڑے آرام سے گائے کے گوبر سے بنے صابن اور گاؤ موتر سے بنی دواؤں کی پروموشن اس دعوے کے ساتھ کر رہے ہیں کہ ان سے کینسر کا علاج ممکن ہے۔